”حماقتوں کے دور میں“

نپولین ایک فوجی تھا اپنے ملک فرانس کو اس نے شہنشاہی ورثے پر مبنی نظام کہنہ سے نجات دلائی۔ انسانی حقوق کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے قوانین اور ان پر عملدرآمد کے لئے عدالتی نظام متعارف کروائے۔ فرانس ترقی، خوش حالی اور آزاد خیالی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑنا شروع ہوگیا۔

اپنے ملک کو جدید اور توانائی سے بھرپور ملک بنالینے کے بعد نپولین کے ذہن پر یہ گمان طاری ہوگیا کہ ”قدرت“ نے اسے صرف اپنے ملک کی قسمت سنوارنے پر ہی مامور نہیں کیا۔ اسے یورپ کے بقیہ ملکوں، حتیٰ کہ سمندر کی بدولت باقی دنیا سے کٹے برطانیہ میں بسے انسانوں کو بھی ”آزاد“کروانا ہے۔ وہ اپنے ”مشن“ کی تکمیل پر روانہ ہوا تو برطانیہ اور روس کے ساتھ طویل جنگوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔
فرانس، برطانیہ اور روس میں سے کوئی ایک ملک بھی ان جنگوں کے ذریعے اپنی بالادستی مسلم نہ کر پایا۔ ایک دوسرے کے خلاف لڑتے ہوئے ان تینوں ملکوں نے البتہ جو فوجی قوت حاصل کی اسے ایشیائ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی خطوں کو غلام بنانے کے لئے بے دردی سے استعمال کیا گیا۔ افریقہ کے بیشتر حصے فرانس نے ہتھیالئے۔ ایشیاءپر برطانیہ کی بالادستی مسلّم ہوگئی۔ روس نے اگرچہ سمندر پار نوآبادیاں قائم کرنے کی بجائے ہمسایوں کو روندتے ہوئے اپنا رقبہ بڑھانے کو ترجیح دی۔
روسی شہنشاہت کی توسیع اور بالادستی کی خاطر لڑی جنگیں ٹالسٹائی کے ناولوں اور افسانوں کا اصل موضوع رہی ہیں۔ اپنے تخلیق کردہ کرداروں کو ان جنگوں کے تناظر میں رکھ کر اس ناول نگار نے انسانی نفسیات کی کئی جہتوں اور گہرائیوں کو دریافت کیا۔ آج کی دنیا جسے Body Languageکہتی ہے کہ وہ درحقیقت ٹالسٹائی نے اپنے کرداروں کے ساتھ مخصوص ہوئے Gesturesمیں تلاش کی تھی۔ ضخیم مگر مسحور کن ناول لکھ کر ٹالسٹائی نے محض انسانی نفسیات کی بے تحاشہ جہتوں ہی کو عیاں نہیں کیا۔ کمال اس کا یہ بھی تھا اس کی لکھی ہوئی زبان انتہائی سادہ ہوا کرتی تھی۔ اس کے مداح انتہائی اشتیاق سے جب سے یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ سادہ زبان میں لکھنے کا ایسا ہنر کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے تو ٹالسٹائی بے اعتنائی سے صرف یہ جواب دیتا کہ سادہ زبان لکھنے کے لئے مشق بے انتہا کرنا پڑتی ہے۔
اُردو زبان بنیادی طور پر شاعری کی زبان رہی ہے۔ شاعری کا چلن اس نے عربی اور فارسی سے مستعار لیا ہے۔ تشبیہ اور استعارے اس شاعری کی اصل پہچان ہیں جنہیں اوزان کے سخت نظام میں رکھ کر اپنی بات کہنے کے لئے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ میرتقی میر نے مگر انتہائی ریاضت اور مشقت کے بعد سادہ زبان میں بات کہنے کا ہنر دریافت کرلیا تھا۔ اسی لئے تو غالب ”کوئی میر بھی تھا“ کہنے کو مجبور ہوا۔ میر کی متعارف کردہ سادگی مگر اس کے بعد تقریباََ ختم ہوگئی۔ جن شاعروں نے اسے استعمال کیا،”عوامی“ ہونے کی تہمت لگاکر ناقدین نے انہیں ”مستند“ شاعروں کی فہرست سے نکال باہرکیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد ابھرنے والے شاعروں میں ناصر کاظمی لیکن ایک خوب صورت استثناٰءاس لئے بھی رہے کہ انہوں نے چھوٹی بحر میں سادہ زبان لکھی۔ ”غم ہے یا خوشی ہے -تو....“والی غزل نصرت فتح علی خان کی بدولت آپ نے بھی سن رکھی ہوگی۔ مجھے اپنی بات کہنے کے لئے اسی غزل کی طرف آنا تھا۔ وہاں پہنچنے سے قبل اگرچہ نپولین سے شروع ہوکر ٹالسٹائی اور پھر میر کی طرف آناپڑا۔مقصد جبکہ ناصر کاظمی کے اس شعر کو یاد کرنا تھا جس میں ”آفتوں کے دور میں“ شاعر نے اپنے محبوب کو ”چین کی گھڑی“ قرار دیا تھا۔ چین کی جس گھڑی کا میں ذکر کررہا ہوں اسے چین میں بنی کوئی گھڑی تصور نہ کیا جائے۔ مقصد میرا ناصر کاظمی کی وساطت سے ”دور“ اور”گھڑی“ کا تذکرہ کرنا ہے۔ محض ایک لمحہ جو برسوں تک پھیلے ”دور“ کے تناظر میں صرف تھوڑی دیر کو آتا اور گزر جاتا ہے۔
ناصرکاظمی نے اپنے زمانے کو ”آفتوں کا دور“ اس لئے کہا تھا کیونکہ قیامِ پاکستان کے بعد لاکھوں خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک نئے ملک میں ہجرت کے بعد آباد ہونا چاہ رہے تھے۔ دربدری کے ان دنوں میں ہر فرد کو اپنی پڑی تھی۔ محکمہ بحالیات والے رقبے اور مکانات الاٹ کررہے تھے۔ کئی ”خاندانی“ لوگوں کے کلیم درست تسلیم نہ کئے گئے جبکہ تیزطرار”اجلاف“ کی نئی نسلوں نے نئے ملک میں آکر محکمہ بحالیات کے راشی افسروں سے تعلقات گانٹھ کر بغیر کسی محنت اور دلاوری کے ”ککھ سے لکھ“ بن کر دکھادیا۔
آپادھاپی کے اس ماحول میں دہشت ووحشت زدہ ناصر کاظمی رات گئے تک لاہور کی سنسان سڑکوں پر اور گلیوں میں میلوں تک پیدل چلتا رہتا۔ اپنے کبوتروں کو دانہ ڈالتا۔ اس کے گھر کے دیواروں پر ”اداسی بال کھولے“ سورہی ہوتی۔”غم ہے یا خوشی ہے....“ والی غزل کے مقطع میں اسی لئے وہ ”ناصراس دیار میں۔کتنا اجنبی ہے تو؟“کہنے پر مجبور ہوا۔
مجھے کئی دنوں سے ناصر کاظمی والی کیفیت سہنا پڑ رہی ہے تو صرف اس ”صحافت“ کی وجہ سے جو نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز کے نام پر 24/7 مستعد رہنے والے ٹی وی چینلز نے متعارف کروائی ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ اوازان کے اصولوں کے مطابق یہ درست ہوگا یا نہیں مگرایک صحافی کی حیثیت میں کڑھتے ہوئے میں ”حماقتوں کے دور میں“ استعمال کرتا ہوا ”آفتوں کے دور میں“ والے شعر کی تحریف کرنا چاہ رہا ہوں۔ تحریف مکمل اس لئے بھی نہیں کر پایا کہ مجھے ہرگز معلوم نہیں کہ ”حماقتوں“ کے اس دور میں تھوڑا سوچنے اور عقل کو استعمال کر لینے کی گھڑی کہاں اور کس کے ذریعے نصیب ہو سکتی ہے۔
تھوڑا سکون صرف یہ جان کر نصیب ہوتا ہے کہ میں حماقتوں کے اس دور میں ہرگز اکیلا نہیں ہوں۔ کئی روز سے تواتر کے ساتھ اس کالم میں آپ کو بتائے چلے جا رہا ہوں کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی بہت پڑھنے اور سوچنے کے بعد لکھنے والوں کی اکثریت اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں خجل خوار ہوتی چلی جارہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا نمونہ کہاں سے نمودار ہوگیا۔
نہایت دیانت داری سے اب یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ 2ارب ڈالر تک مہیا کرنے والے اشتہار بازوں کو ٹی وی سکرینوں پر Ratings درکار ہوتی ہے۔ ٹرمپ نے اپنی بدکلامی کے ذریعے اس Ratingsکو یقینی بنانا شروع کردیا تھا۔ ٹی وی کے لئے صحافت کرنے والے بہک گئے۔ انہوں نے اس بدکلام اور مستقل جھوٹ بولنے کی عادت میں مبتلا ٹرمپ سے سوالات کرنا چھوڑ دئیے۔ اس کے منہ میں جو آیا وہ بکتا چلا گیا۔
اس کی بدکلامی مقبول ہونا شروع ہوئی تو امریکہ کی سفید فام اکثریت کے دلوں میں کئی دہائیوں سے چھپی نفرت کو اظہار کا وسیلہ نصیب ہوگیا۔ بات اگر نفرت کے اظہار تک ہی محدود رہتی تو شاید سوچ سمجھ کر لکھنے والے اتنا پریشان نہ ہوتے۔ دل ودماغ تو اس وقت پریشان ہوگئے جب یہ بات تقریباََ ممکن نظر آنے لگی کہ آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات کے بعد ٹرمپ جیسا بدکلام اور جھوٹا شخص امریکہ کا صدر منتخب ہو سکتا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے بٹن امریکی صدر کی انگلی کی دسترس میں ہوتے ہیں۔ ٹرمپ کی بدکلامی اور دیدہ دلیری نے امریکی صدر کی اس دسترس کو یاد کرنے پر مجبور کردیا۔
ربّ کریم مگر واقعتا بہت مہربان ہے۔ جمعہ کی سہ پہر سے اب ایک Audio Tapeمنظر عام پر آگئی ہے۔ اس ٹیپ میں خواتین کے بارے میں ٹرمپ نے انتہائی رکیک فقرے استعمال کئے ہیں۔ ان فقروں نے امریکی ووٹروں کی اب تک لاتعلق ہوئی ایک کثیر تعداد کو بھی امریکی صدر کی ایٹمی ہتھیاروں تک دسترس کو یاد کرنے پر مجبور کردیا۔ دیکھتے ہیںہمارے ہاں چند بدکلام سیاستدانوں کی بدولت Ratings ڈھونڈنے والوں کو کب یاد آئے گا کہ پاکستان بھی”اُمتِ مسلمہ“ کی واحد ایٹمی قوت ہوا کرتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن