انفرادی فتویٰ قتال یا واجب القتل قرار دینا؟

اس وقت دو ملک خود کو اپنے اپنے مسلک کی روشنی میں اسلامی شرعی ملک تصور کرتے ہیں(1)سعودی عرب (2)ایران۔ دونوں ممالک میں باوجود یکہ دونوں کا مسلک بالکل الگ اور دینی و سیاسی امور کا فہم و استدلال بالکل جدا جدا ہے، کیا ان دونوں ممالک میں ریاست سے تصادم یا عوامی سطح پر کسی بھی شخص کے ایمان بارے میں کفر و مرتد یا اس کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دینے کی شخصی طور پر یا دینی مدرسہ یا مسجد ، و منبر و محراب کو اجازت ہے؟ جی نہیں شریعت پر بنے ہوئے سعودی عرب میں انفرادی طور پر اگر کوئی عالم دین فتویٰ جاری کرتا رہا ہے یا مذہبی منافرت و نفرت کے حوالے سے بطور عالم دین انفرادی موقف پیش کرکے اسے اصرار سے شرعی کہتا رہا ہے تو اس سے اس کا منصب، مسجد اور فتویٰ دینے کا حق فوراً چھین لیا جاتا ہے کسی بھی بڑے سے بڑے ثقہ عالم دین کو بھی انفرادی طور پر ریاستی و عوامی مفادات سے وابستہ امور کے بارے میں ریاست سے متصادم فتویٰ کی اجازت نہیں ہے جن میں جہاد وقتال و شریعت کا معاملہ تو سرفہرست ہے کہ یہ امور مکمل طور پر ریاست ملکیت ہیں۔ کیا ایران میں ایسا قبول اور برداشت کیا جاتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہماری مساجد و مدارس چونکہ ریاست نے اپنے قبضے میں نہیں لئے ہوئے بلکہ انہیں آزادانہ طور پر قبول کیا جاتا رہا ہے اس توقع کے ساتھ کہ ایسے مدارس، مساجد، دینی ادارے اور فتویٰ جاری کرنے والے مراکز کوئی بھی ایسا فتوی ہرگز جاری نہیں کریں گے جو عوامی مفاد، ریاستی مفاد یا شخصی انسانی حقوق کے نیست و نابود ہونے یا قتل ناحق کی ترغیب کا راستہ بنتا ہو مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ریاست کی طرف سے دی گئی کھلی آزادی کو کچھ فتویٰ مراکز اور کچھ مساجد و دینی مدارس کے منتظمین اور علماءبالکل غلط طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہی تلخ حقیقت ہے ماضی میں اسلام آباد کی مسجد سے افواج پاکستان کے خلاف اور انفرادی نفاذ شریعت و جہاں وقتال کے فرض کے طور پر اسلامی افواج کے خلاف مسلح جدوجہد وقتال کو شرعاً درست کہا گیا تھا اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ جدید خوارج کو فوج پر جنگی دباﺅ ڈالنے کی شرعی ترغیب ملی۔ ایسے غیر سنجیدہ علماءجن کو اصلاً ثقہ عالم کہنا بھی تفقیہ علمیت کی نفی ہے، ان کی طرف سے ریاست، عوام و معاشرے کو کیا ملا؟ معصوم انسانوں کا خون ناحق اور وہ بھی سچے مسلمانوں کا بہت زیادہ قتل، مساجد درگاہیں، عبادت گاہیں ایسے خون ناحق سے لبریز رہی ہیں۔ ریاستی اداروں، افواج پولیس کے معصوم افراد شہید کئے گئے۔

بالآخر فوج کو اسلام آباد کے اس فتویٰ گھر میں جمع شدہ دشمنان ریاست و امن و استحکام کی سرکوبی جیسا ناخوشگوار فریضہ ادا کرنا پڑا تھا ہمارے ہاں ثقہ و سنجیدہ غورو فکر اور تدبر و فراست کا اس قدر فقدان ہے کہ غازی علم دین شہید کے درست واقع کو بھی مسلسل غلط مقصد اور غلط موقف کی صحت کیلئے اصرار کے طور پر بطور جواز پیش اور قبول کیا جاتا ہے جس غازی علم دین شہید کو لاہور لا کر دفنانے کیلئے ڈاکٹر محمد اقبال اور ڈاکٹر تاثیر جیسے ثقہ سکالرز اور افراد اٹھ کھڑے ہوئے تھے اس نے کسی مسلمان کو نہیں بلکہ ذات و خاندان رسول کی توہین پر مبنی کتب شائع کرنے والے ہندو پبلشر کو قتل کیا تھا۔ ان کتب کا مصنف بھی متعصب ہندو تھا۔ کیا ہندو مصنف کی اسلام دشمن ہندو ذہنیت کے ساتھ توہین ذات و خاندان رسول کا معاملہ کسی بھی کمزور سماجی فرد اور لاعلمی سے دوچار، یا کم فہم و جاہل پاکستانی خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلم سے ملایا جا سکتا ہے؟ مسلمانوں کے خلاف توہین قوانین کا عموماً غلط استعمال ہوتا ہے کیا توہین قوانین کے نام پر ”مستند عمل رسول “ کو مرکز استدلال ہونا چاہئے یا جذبات پر مبنی فقہی استدلال کو؟ جو ختم نبوت موقف علامہ اقبال کا اپنے خطوط میں جواہر لعل نہرو اور ایک اخبار کے ایڈیٹر کے نام تفصیل سے قادیانیت کے حوالے سے بیان شدہ ہے ہم اقبال کے اسی موقف کو آج بھی درست سمجھتے ہیں مگر ایسا صحت موقف اقبال کی گواہی دیکر کہتے ہیں کہ کسی کو سوشل میڈیا پر کافر قرار دینا یا منبر و محراب و مدارس کی طرف سے مرتد و واجب القتل قرار دینا حالانکہ عملاً اس نے کچھ بھی ایسا نہ کیا ہو جس کی سزا تعزیر کے طور پر ہی سہی ریاست قتل یا پھانسی دے سکتی ہو۔ ریاست کی طرف سے ایسا فتویٰ یا کسی مسلمان کو قتل کر دینے کی ترغیب ہرگز قبول و برداشت نہیں ہونی چاہئے۔ اسی طرح انفرادی طور پر یا دینی مکتب فکر و مسلک سے وابستہ علماءکی طرف سے ریاست ملکیت معاملات میں انفرادی یا گروہی و جماعتی جہاد و قتال کا فتویٰ دینا ناقابل قبول ہے۔ ریاست اور حکومت کو اس حوالے سے وہی سخت ترین رویہ اپنانا ہوگا جو سنی سعودی حکومت اور شیعہ ایرانی حکومت اپناتی ہے بطور خاص ان کے خلاف جو عوام اور سادہ لوح سچے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو اشتعال دلا کر مذہب و دین و شریعت کے نام پر اپنی اجارہ داری قائم کرکے اقتدار کے حوالے سے خود حکمران یا بادشاہ گیر بننے میں مصروف ہیں۔ ختم نبوت کے حوالے سے جو موقف طویل ترین ہنگامی کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پیش کیا ہم اس کی مکمل تائید کرتے ہیں ہم آئینی ترمیم کو واپس لیکر دوبارہ انہی الفاظ کو شامل قانون کرنے پر جناب وزیراعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی اور جن جن اداروں یا افراد نے سرگرم کردار ادا کیا ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن