آئے روز کتابیں شائع ہوتی ہیں اور پھر بُک شیلفوں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ گویا شائع ہونے والی کتابوں میں بیشتر کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو موضوعاتی اعتبار سے مستقل نوعیت کی نہیں ہوتیں۔ بہرطور ایسی کتابیں بھی منظر عام پر آتی ہیں جنہیں چومنے کو جی کرتا ہے کہ اُن میں قوم کے ایسے بیٹوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہوتا ہے جو دیوانہ وار اس قوم اور اس سرزمین کے مستقبل کو محفوظ اور تابناک بنانے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے امر ہو جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کتاب ”معرکہ بڈھ بیر کا ہیرو“ بھی ہے جس میں کیپٹن اسفندیار بخاری شہید کی جرا¿ت رندانہ کو سلام پیش کیا گیا ہے اور اس میں کیپٹن اسفند یار بخاری کے بچپن سے شہادت تک کی زندگی کا احوال بھرپور انداز میں ملتا ہے۔ اس کتاب کی خوبصورت بات یہ بھی ہے کہ یہ کتاب کیپٹن اسفندیار بخاری کے کیڈٹ کالج حسن ابدال کے اُستادِ گرامی پروفیسر محمد ظہیر قندیل کی تحریر کردہ ہے۔ اُستاد والدین کی جگہ پر ہوتے ہیں۔ اچھے اُستاد کے لئے اپنی اولاد کا غم اور اپنے شاگردوں کا غم ایک جیسا ہوتا ہے۔ پروفیسر ظہیر قندیل لکھتے ہیں کہ کس طرح وہ کیپٹن اسفندیار سے متعلق لکھتے ہوئے کئی بار روتے اور گہرے غم میںڈوب جاتے۔ میں یہ سوچتا ہوں ایک استاد کے اپنے شاگرد کے بارے میں ایسے احساسات ہیں تو شہید کے والد محترم ڈاکٹر فیاض بخاری ، والدہ محترمہ اور اُن کے بھائیوں اور خاندان کا غم کتنا بھاری ہے۔ قوم ڈاکٹر فیاض اور مسز فیاض بخاری کی مقروض ہے اور ہمیشہ رہے گی کہ کس طرح سے انہوں نے اپنے جواں سال جگر گوشے کو اس ملک اور اس دھرتی کی حفاظت کے لئے پیش کر دیا۔ کیپٹن اسفندیاربخاری تو ویسے بھی اُن دنوں سٹاف اپوانٹمنٹ پر تھے لیکن جب دہشت گردوں کا حملہ ہوا اور وہ مذکورہ مقام پر بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان پہنچانا چاہ رہے تھے تو کیپٹن اسفندیار بخاری سے رہا نہ گیا اور انہوں نے جوانوں کی قیادت سنبھالتے ہوئے چھپے ہوئے دہشت گردوں کو ٹارگٹ کر کے انہیں ٹھکانے لگانا شروع کر دیا۔ اسی دوبدولڑائی میں قوم کو کیپٹن اسفندیاربخاری ایسا بہادر اور قیمتی بیٹا کھونا پڑا۔ کیپٹن اسفندیار بخاری اور اس جیسے ہزاروں شہیدوں کے خون نے اس دھرتی کو سینچا ہے تو الحمدﷲ پاکستان میں ان قربانیوں کا ثمر پُرامن پاکستان کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے۔ اسفندیاربخاری اپنے کورس کے ”سورڈ آف آنر“ تھے۔ ملٹری ٹیکٹس میڈل بھی انہوں ہی نے حاصل کیا۔ اس قسم کے نوجوان افسروں میں ایک اسپارک ہوتا ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنے وقت پر جرنیل کے عہدے پر جا پہنچتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے جب دفاع وطن کو یقینی بنانے کے لئے قربانیوں کی ضرورت پڑتی ہے تو ہماری افواج کے جوان اور افسر ایک قدم پیچھے نہیں ہٹتے اور وہ ذاتی مفاد ، خاندان اور حسین مستقبل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی جان جاں آفرین کے سپرد کر دیتے ہیں۔ کیپٹن اسفندیاربخاری نے بھی ایسا ہی کیا اور اﷲ کے اُن پسندیدہ بندوں میں شامل ہو گیا جو اپنے کارناموں کی بنا پر ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ یہ وہ عظیم تر قربانی ہی ہے جس کی بدولت آج کیپٹن اسفندیاربخاری اپنی افواج کے لئے وقار کی علامت ہے۔ وہ اپنے والدین کا مان ہے اور اپنے اساتذہ کے لئے اس حد تک قابل فخر ہے کہ ایک اُستاد اپنے شاگرد پر کتاب مرتب کرنا اپنے لئے سعادت گردانتا ہے۔
کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کیپٹن اسفندیاربخاری ایک متحرک شخصیت کا نام تھا۔ انہوں نے چھوٹی سی عمر میں ہی یورپ کے بیسیوں ممالک کی سیر بھی کر لی۔ اقوام متحدہ کے پرچم تلے پاکستانی امن فورسز کے ہمراہ خدمات بھی سرانجام دے لیں اور سب سے بڑھ کر وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف اپنی یونٹ کے ہمراہ بھرپور جنگ بھی لڑی۔ گویا انہوں نے چھوٹی سی عمر میں ایسے وہ تمام کارہائے نمایاں سرانجام دے لئے جو شائد کچھ لوگ بلکہ اکثر لوگ عمر بھر انجام نہیں دے پاتے۔ کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسفندیاربخاری انتہائی پروفیشل اور سخت گیر سولجر ہونے کے باوجود اندر سے بہت نرم دل رکھتے تھے۔ کتاب کے صفحہ نمبر158پر فرنٹیئرفورس رجمنٹ کے میجر خالد کے حوالے سے ایک واقعہ درج ہے جس سے اُن کے پیشہ ور فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین انسان ہونے کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں:
”کیپٹن اسفندیاربخاری ایجوٹنٹ تھا۔ رات کو مجھے ایک کام یاد آ گیا تو میں اسفندسے ملنے اس کے پاس آفس ہی چلا آیا۔ مجھے یقین تھا کہ اتنی رات کو بھی وہ اپنے آفس ہی میں ملے گا۔ جب میں دفتر پہنچا تو میں حیران رہ گیا کہ وہ اپنی نشست پر نہیں تھا۔ اسی حیرانی میں اِدھر اُدھر دیکھا تو اسفندیاربخاری کو ہاتھ میں گن لئے سنتری کی ڈیوٹی ادا کرتے ہوئے پایا۔ میں اس کے پاس چلا گیا اور پوچھا: ایجوٹنٹ صاحب! یہ کون سی ڈیوٹی ہو رہی ہے۔ میری بات سن کر اسفندیار مسکرایا اور جواب دیا۔ سر! دراصل میں تھکان کے آثار رفع کرنے دفتر سے ذرا باہر نکلا تو سنتری کو دیکھا کہ وہ صحیح طور پر چاک چوبند نہیں ہے۔ کچھ ڈھیلا ڈھیلا ہے۔ میں نے اس سے استفسار کیا تو اس نے بتایا کہ وہ کسی مصروفیت کے باعث کھانا نہیں کھا سکا ہے اور اسی طرح ڈیوٹی پر آ گیا ہے۔ اب بھوک سے اس کا برا حال ہے۔ میں نے سوچا یوں تو اس کی ڈیوٹی بہت مشکل ہو جائے گی یہاں تو ہوشیار اور مستعد شخص کو سنتری کا کام کرنا چاہئے۔ اس لئے اس سے کہا کہ وہ جا کر کھانا کھائے، چائے پیئے، کچھ دیر بعد فریش ہو کر آ جائے۔ اس نے کہا۔ سر! یہاں ڈیوٹی کا کیا ہو گا؟ تو میں نے کہا اتنی دیر میں تمہاری جگہ ڈیوٹی دوںگا۔ لہٰذا میں اب اس کی ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہوں۔“
یوں جب وہ جوان کھانا کھا کر واپس آیا تو کیپٹن اسفندیاربخاری نے اپنے دفتر میں جا کر ضروری امور نمٹائے۔ گویا کیپٹن اسفندیاربخاری ابھی کپتانی ہی کے رینک میں تھے تو قیادت کی صلاحیتوں سے مالامال تھے وہ یقینا اپنے جوانوں اور جونیئرز کے لئے رول ماڈل تھے اور شہادت کے بعد تو وہ پاکستان کے ہر شہری کے لئے قابل تقلید ہیں کہ وطن کی خاطر اگر جان کی بازی بھی لگانا پڑے تو اس سے گریز نہیں کیا جانا چاہئے۔ بلاشبہ پاکستان میں قائم ہوتا امن اور خوشحالی کیپٹن اسفندیاربخاری ایسے شہیدوں کی قربانیوں کی ہی مرہون منت ہیں۔ خدا ان کے درجات مزید بلند فرمائے اور ان کے والدین اور خاندان کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔