لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے صاف پانی کمپنی میں بھاری تنخواہوں پر افسروں کی تعیناتیوں کا ریکارڈ پیش نہ کرنے پر چیف سیکرٹری پنجاب زاہد سعید پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ اڑھائی لاکھ روپے تنخواہ والے عہدے پر پچیس پچیس لاکھ روپے پر کس قانون کے تحت افسروں کی فوج بھرتی کی گئی۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے سماعت کی۔ درخواست گزار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صاف پانی کمپنی میں بھاری تنخواہوں پر خلاف قانون افسروں کو بھرتی کیا گیا ہے۔ چیف سیکرٹری نے جواب داخل کرنے کے لئے مہلت طلب کرتے ہوئے کہا کہ صاف پانی سمیت دیگرکمپنیاں میرے دائرہ اختیار میں نہیں۔ جس پر عدالت نے سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ساٹھ کے قریب کمپنیاں اور ادارے آپ کے ماتحت نہیں تو آپ کس چیز کے چیف سیکرٹری ہیں۔ فاضل عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک کی پائی پائی قیمتی ہے آپ پیسے کو کس حیثیت سے لٹا رہے ہیں۔ قوم کا ایک ایک بچہ ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ قرض میں ڈوبا ہوا ہے مگر صاف پانی کمپنی میں پچیس پچیس لاکھ روپے پر افسروں کی فوج کو بھرتی کیا گیا۔ عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ یہ بھرتیاں کس قانون کے تحت عمل میں لائی گئیں۔ عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ چیف جسٹس کے پاس جا کر شکایتیں لگاتے ہیں کیا چیف جسٹس اس عدالت کے معاملات میں مداخلت کے مجاز ہیں؟ عدالت نے چیف سیکرٹری سے کہا کہ پہلے آپ بھاری تنخواہوں پر افسر بھرتی کرتے ہیں بعد میں ریکارڈ کو آگ لگا دیتے ہیں۔ اس صورتحال میں عدالتیں خاموش اور ہاتھ پہ ہاتھ دھرکر بیٹھی نہیں رہ سکتیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر چیف سیکرٹری پنجاب کو صاف پانی کمپنی اور دیگر دیگر کمپنیوں میں بھرتی کئے گئے افسروں کی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت اٹھارہ اکتوبر تک ملتوی کر دی۔