صائمہ عمران
عالمی شہرت یافتہ پاکستانی مصور منصور راہی 1939ء میں مغربی بنگلہ دیش کے علاقے مالدا میں پیدا ہوئے۔ بعدازاں راج شاہی منتقل ہوئے جہاں ان کے والد ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج تھے، آپ نے جس ماحول میں پرورش پائی وہاں کسی بھی آرٹسٹ بچے کی پیدائش کو اﷲ تعالٰی کی خصوصی نعمت سمجھا جاتا تھا اس لئے والدین بھی اس کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے تمام وسائل استعمال کرتے تھے ایک پروگرام کے تحت منصور راہی کو پاکستان آرٹس کونسل سے سکالرشپ ملی تووہ ایسے کراچی آئے کہ پھر ان کی کوششوں سے یہاں بھی آرٹ پنپنے لگا، ان کے فن پاروں کی پہلی نمائش 1957ء میں ہوئی۔ منصور راہی کی اہلیہ ’’سفیر مشرق‘‘ کا خطاب پانے والی حاحرہ منصور لکھنو میں پیدا ہوئیں ان کے والد سول سروس سے منسلک ہونے کے باوجود شاعری سے بے حد لگاؤ رکھتے تھے اس لئے حاجرہ نے اپنا بچپن سے ہی گھر میں معروف شاعروں اور ادیبوں کی طویل نشستیں جمتی دیکھیں، منصور راہی کی طرح حاجرہ منصور کو بھی مصوری کی صلاحیتیں قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئی تھیں۔
حاجرہ منصور کا ایک ہی عہد تھا کہ پاکستان جا کر نہ صرف بسنا ہے بلکہ پاکستان میں آرٹ کلچر کا شعور بھی اجاگر کرنا ہے زین العابدین جیسے آرٹ لور اس حقیقت کو جان گئے کہ اگر حاجرہ اور منصور کی شادی ہو جائے تو یہ آرٹسٹ جوڑا مصوری کی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کر سکتے ہیں ان کے مشورے پر منصور راہی نے حا جرہ سے شادی کی پاکستان کے انٹرنیشنل آئیکون خداداد مصوری کی صلاحیتوں کے حامل اس جوڑے میں ایک اور انفرادیت یہ ہے کہ دونوں مصوری کی الگ الگ اصناف پر طبع آزمائی کر کے بام شہرت تک پہنچے حاجرہ منصور نے پینٹگز میں اگر واٹر کلرز کا استعمال کیا تو منصور نے آئل پینٹگ میں اپنی شناخت بنائی حاجرہ منصور نے قدرت اور حقیقت پر مبنی فن پارے بنائے اور ماڈرن اورئینٹل میں اپنی منفرد حیثیت بنا چکی ہیں مصوری کے متعلق بتاتی ہیں کہ میں نے زیادہ تر کام ’’امن‘‘ اور خوبصورتی پر کیا ہے لیکن مجھے مختلف تجربات کرنے اور نت نئی تکنیک متعارف کروانے کئے منصور کی ہر قدم پر رہنمائی مل رہی ہے حاجرہ کی پینٹگ نسوانی حسن کا بے مثال نمونہ ہوتی ہیں جو خقیقتاً عبدالرحمن چغتائی کی پینٹنگ کی یاد دلاتی ہیں لیکن یہاں بھی چغتائی کے فن پاروں کے برعکس حاجرہ کی تخلیق میں ماڈرن ٹکسچر (texture) بھی نمایاں دیکھنے کو ملتا ہے تکنیکی لحاظ سے منصور راہی نے انسان اور جانور پر بہت سٹڈی کرنے کے بعد گہرائی کے ساتھ بولڈلی کام کیا ہے اس لئے ان کے فن پاروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ایک کہنہ مشق مصور اپنی تخلیق سے آپ کے ذہن میں کسی خاص عنوان سے تصویر کشی کر رہا ہے تخیل کو کینوئنس پر لانے کے لئے منصور راہی نے ہمیشہ جدید کیوب ازم modern cubism) ( کے اصولوں پر ہی مصوری کی ہے یہی نہیں اپنے شعبہ تخلیق میں نئی نئی اختراعات بھی متعارف کروائی ہیں اپنے ان تجربات کے متعلق منصور راہی کہتے ہیں کہ کچھ بھی ایجاد کرنے کے لئے آپ کو مضمون پر مکمل مہارت حاصل ہونی چاہئے اور اپنی مسلسل محنت سے آج میں اس مقام پر ہوں کہ آنے والے آرٹسٹوں کے لئے ماڈرن کیوب ازم میں نئی نئی جہتیںمتعارف کروارہا ہوں لیکن نئے آرٹسٹوں سے مجھے یہ گلہ ہے کہ وہ محنت اور ریاضت کے بغیر گھنٹوں اور دنوں میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچنا چاہتے ہیںآرٹ کو سیکھنے لے لئے لمحے نہیں دہائیاں چاہئے ہوتی ہیںاپنے ملک میں آرٹ کے کلچر کے فروغ اور مستقبل کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے دونوں آرٹسٹ اس موئقف پر متفق نظر آئے کہ آج کا انسان تو کافی حد تک آرٖٹ کی اہمیت سے واقف ہو چکا ہے لیکن حکومتی سطح پر اس کے فروغ کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے نہ ہی آرٹسٹ کو فخر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آرٹ کے فروغ کیلئے معاشرتی رویے تبدیل کرنا ہونگے۔ دنیا کے کئی ممالک میں یہ ّرٹسٹ جوڑا اپنی پینٹگز کی نمائش کر چکا ہے اور کئی ملکی اور غیر ملکی نمایاں اعزاز بھی حاصل کر چکی ہیں مثلاً پاکستان کا چغتائی ایوارڈ، پرائیڈ آف پرفارمنس کے ساتھ ساتھ انہیں ’’سفیر مشرق‘‘ کا خطاب بھی مل چکا ہے جبکہ منصور راہی کو بھی پرائیڈ آف پرفارمنس، شاکر علی ایوارڈ اور دو مرتبہ آئی ایل او کی طرف سے بینائل ایوارڈ بھی لے چکے ہیں۔ حاجرہ منصور نے اپنا بین الاقوامی تجربہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو میں کئی بین الاقوامی نمائشیں کر چکی ہوں۔ ایک مرتبہ جرمنی میں عالمی مصوروں کی نمائش کے انعقاد کے موقع پر منتظمین نے میرے کام کو اتنا سراہا کہ اسے نمائش کے دوران الگ کمرہ میرے لئے مختص کیا گیا
اس وقت یہ آرٹسٹ جوڑا اسلام آباد میں آرٹ کے فروغ کے لئے سرگرم ہے اور اپنے سٹوڈیو میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی گیلری اور میوزیم بھی چلا رہے ہیں۔ حاجرہ منصور اپنی گیلری کے متعلق بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب ہم اس دنیا میں نہیں ہوں گے تو یہ آرٹ گیلری ہماری زندگی کے تمام آرٹ کولیکشن کا ایک خوبصورت مقام ہو گا۔