میرے تراجم(2) 

Oct 10, 2018

گورکی کا چیخوف پہ مضمون جو ادبَ لطیف میں پچھلے سال شائع ہُوا۔پھرچیخوف کی کہانی Chameleon پر مبنی ڈرامہ’’گِرگٹ‘‘، Arnold Bennet کا کھیل The Stepmother کو ’’ناول نگار ‘‘کے نام سے ترجمہ کیا،اگاتھا کرِسٹی کےTen Little Niggers کو ’’دس بونے‘‘ کے نام سے کراچی ٹی وی سے کیا۔ کاسٹ میں عذرا شیروانی، جاوید شیخ، بہروز سبزواری، مشتاق احمد، نصیر احمد، طلعت حسین،زینت یاسمین، محمود علی، سبحانی با یونس، لطیف نامی اور ایک اداکارہ کا نام میں بھول گیا ۔پشکن کی دو نظمیں، رابرٹ لوئیس سٹیونسن کی نظم Vagabond۔ہاں پودوفکن کی کتاب’’فلم تیکنیک اور فلم ایکٹنگ‘‘ بھی ترجمہ کر رکھی ہے۔ پبلشر ندارد۔اور بھی کام ہوں گے جو حافظے میں اس وقت نہیں آ رہے۔
آج کل میں ایک پولش کتاب کا، جو انگریزی اور پولش دونوں زبانوں میں ہے ، ترجمہ کر کے دوسری بار ریوائز کر رہا  ہوں۔آئیے تھوڑا اُسکا تعارف ہو جائے کہ اس سے اقتباسات میں اکثر اپنے کالم میں استعمال کرتا رہتا ہوں:  سلیس فلسفۂ سیاسیات
TRACTATUSPOLITICO-PHILOSOPHICURAC        
     مصنف: ڈبلیو۔ جولین کوراب کارپووچW. JULIAN KORAB-KARPOWICZ  
 ترجمہ و تہذیب: بختیار احمد        
انتساب
        ڈیوڈ ہیز کے نام
کوئی بھی شخص ،کوئی بھی شے‘ نئی یا پرانی ، بنیادی یا سطحی، ٹھوس یا وہمی( شعبدیاتی) ،
    تنِ تنہا محض اپنی کوشش سے ‘کسی کی بھی مدد کے بغیر ‘ کبھی حاصل نہیں کر پایا۔
(برونسلا میلینووسکیBronislaw Malinowski )
مصنف کا پیش لفظ
 میری یہ کتاب یہ ثابت کرنے کی ایک کوشش ہے کہ انسانوں کی تخلیق کردہ یہ دنیابنیادی طور پر اقدار کی دنیا ہے۔مزید یہ کہ اخلاقیات اور سیاسی فکرکا الحاق ممکن ہے ۔میں اچھی ریاست اور مسرور سماج کا تصور پیش کرتا ہوں۔میں یہ دکھاتا ہوں کہ سماجی زندگی کی مرکزی قدر اور سیاست کی بنیاد‘باہمی رفاقت اور تعاون پر منحصر ہے۔ فلسفیانہ کام کے طور پر میری کتاب کی وجہِ تحریر سچ کی تلاش ہے۔تاہم میں اس رائے کا حامی نہیں ہوں کہ سچ کے بارے میں جو تصورات یہاں پیش کیئے گئے ہیں وہ حتمی اور ناقابلِ تنقید ہیں۔’’ناقابلِ تنقید اور حتمی‘‘ سچ عام طور پر ایک قاعدہ یا عقیدہ ہوتا ہے اور عقیدہ فلسفے کی نہیں بلکہ ایک نظریئے کی بنیاد ہوتا ہے ۔ میری کتاب تمام مسائل کی کوئی حتمی وضاحت پیش کرنے کے بجائے انسانیت کے لیے مسرتوں تک پہنچنے کی ایک نئی راہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔۔۔۔۔ باہمی رفاقتوں کے ذریعے ۔میں اُن تمام مصنّفین کا خاص طور پرشکر گزار ہوں جن کے خیالات اور تحاریر نے میری سیاسی فلاسفی کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔سب سے بڑھ کر جنہوں نے مجھے متاثر کیا اور جن کو میں کلاسیکی روایت کا حامل سمجھتا ہوں وہ ہیںثیوسی دائدِس Thucydides، افلاطونPlato ، ارسطوAristotle، سیسیروCicero، سینٹ تھامس ایقوینسSt. Thomas Aquinas،ہیوگو گروشس Grotius  Hugo ، اور جون لوک  John Locke بمع کنفیوشس اور الفارابی۔میں اُن مفکّرین کا بھی شکر گزار ہوں جن سے میں پوری طرح متفق نہیں ہوں۔وہ ہیں نکولائی میکیاولی Machiavelli‘Niccolo، تھامس ہوبیسThomas Hobbes اور ہانس مورجیینثاؤHans Morgenthau۔
مترجم کا پیش لفظ: 
کسی بھی مصنِّف، ڈرامہ نگار،شاعر، افسانہ نویس، ناول نگار، کالم نگار، انشا پرداز،مصوّر،فنکار، موسیقار، گُلو کار،اداکار، ہدایت کار، فلم ساز، ڈیزائنر، عکّاس یا پیشکار کی فطری دلی خواہش ہوتی ہے کہ جو ہنر اور فن اُس کو اللہ تعالیٰ نے بطورِ خاص ودیعت کیا ہے اُسے معاشرے کی اصلاح، بالیدگی، جِلا، ارتقائے جمالیات، بہتری، ترقی اور انسانوں کے سُکھ اور سکون اور انشراحِ طبع کے لیے استعمال میں لائے۔ لفظ ’ودیعت‘ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ میرا ایمان ہے کہ ہر ہنر مند اور فنکار دراصل اللہ تعالیٰ کا چنیدہ فرد ہوتا ہے۔ ڈبلیو ۔جولین کوراب کارپووچW. Julian Korab-Karpowicz  بھی اُنہیں چنیدہ لوگوں میں اپنا شمار کر سکتے ہیں۔جب چوہدری سلیم صاحب نے مجھے یہ کتاب تھمائی اورمیں نے اس کا ایک سرسری جائزہ لیا تو مجھے لگا جیسے اس کتاب نے مجھے جکڑ لیا ہے۔ سب سے پہلا خیال جو مجھے آیا وہ یہ تھا کہ اس کتاب کی تو ہماری قوم کو بالعموم اور ہمارے موجودہ اور مستقبل کے سیاستدانوں کو بالخصوص ضرورت ہے۔ چنانچہ میں نے اس کتاب کو اُردو کا جامہ پہنانے کا فوری ارادہ کر لیا۔میں نے یہ پیش لفظ لاہور میں ستمبر 2017 کو تحریر کرنا شروع کیا تھا۔ آج 16 جولائی 2018 کے دن میں اس کتاب کے اُردو ترجمے کا دہرانیہ ختم کر چکاہوں۔
 اور اب کتاب سے چند ابتدائی اقتباسات:    سلیس فلسفۂ سیاسیات TRACTATUS POLITICO-PHILOSOPHICUS 
1 ۔سیاسیات حکومت کرنے کے فن کا نام ہے: امدادِ باہمی کے لیے معاشرے کی تنظیم کرنے کو سیاسیات کہتے ہیں۔
1.1 ۔حکومت کرنے کا فن دوشعبوںپر مشتمل ہے۔ ایک تو کسی مشترکہ لائحہ ِ عمل یعنی امدادِ باہمی سے معاشرے کو احسن طریقے سے منظّم کرنے کی لیاقت اور دوسرے خود کو طاقت ور رکھنے کی اہلیت۔
1.11 ۔امداد باہمی کے لیے معاشرے کی تنظیم ، خود کو حکومت میں رکھنے کے مقابلے میں بہتر مقصد ہے۔حکومت میں رہنا منزلِ مقصود نہیں منزل تک پہنچنے کامحض ایک راستہ ہے ۔
1.12 ۔کسی مخصوص سیاست دان یا کسی ایک مخصوس پارٹی کا حکومت میں رہنا منزل نہیں ہو سکتی۔
 یہ ہے میرا تازہ ترین ترجمہ۔مجھے امید ہے کوئی نہ کوئی اللہ کا پیارا پبلشر اس کتاب کو مل ہی جائے گا۔ میں بھی دعا گو ہوں آپ بھی دعا کیجیے۔ آمین ۔
(ختم   شُد )

مزیدخبریں