سیاسی جماعتوں کو اظہار رائے کی آزادی،احتجاج سے دوسرے متاثر نہیں ہونے چاہئیں: اسلام آباد ہائیکورٹ

Oct 10, 2019

اسلام آباد (صباح نیوز+ آن لائن)اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جمیعت علماء اسلام (ف)کے امیر مولانا فضل الرحمان کی جانب سے 27اکتوبر کو حکومت کے خلاف اعلان کردہ آزادی مارچ اور دھرنے کو روکنے کے حوالہ سے د ائر درخوست پر سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملہ کو ڈپٹی کمشنردیکھیں گے۔اسلام آباد انتظامیہ، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور مجسٹریٹ اسلام آباد کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی عملداری یقینی بنائیں۔اجازت کے بغیر کوئی دھرنا نہیں دے سکتا۔ اجازت ملی تو وہ آئیں گے۔لاء اینڈ آرڈر کو دیکھنا حکومت کا کام ہے۔احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر اس سے دوسرے متاثر نہ ہوں۔عدالت نے فوری طور پر دھرنے کو روکنے کی استدعا مسترد کردی ہے اور قرار دیا ہے کہ جب تک اسلام آباد انتظامیہ کو باضابطہ تحریری طور پر درخواست نہیں آتی اس درخواست پر کارروائی آگے نہیں بڑھائی جا سکتی۔درخواست گزار حافظ احتشام کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے 27اکتوبر کو لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے، ختم نبوت اورتحفظ ناموس رسالتﷺ کا نام استعمال کیا جا رہا ہے۔درخواست میں مولانا فضل الرحمان، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری تعلیم، کمشنر اسلام آباد اور دیگر کو فریق بنایا گیاہے۔درخواست گزار کا کہنا تھا کہ دھرنے کو روکا جائے اور آزادی مارچ کو روکنے کے لئے اسلام آباد انتظامیہ کو حکم دیا جائے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایاجائے۔چیف جسٹس نے درخواست گزار حافظ احتشام سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست اس وقت قبل از وقت ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ابھی تو دھرنے کے منتظمین نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو احتجاج کی کوئی تحریری درخواست ہی نہیں دی۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام کارکنان اور شہریوں کے بنیادی حقوق ہیں اور اسی طرح سیاسی جماعتوں کے بھی حقوق ہیں اور انہیں آزادی اظہار رائے کی آزادی ہے۔ہم مفروضے پر کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ جو قانون اور عدالتی فیصلے پہلے سے ہیں اس پر عملدرآمد کرانے کے پابند ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ دھرنوں کے حوالہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان اور اسلا م آباد ہائی کورت کے فیصلے ہمارے مد نظر ہیں۔درخواست گزار کا کہنا تھا کہ عدالت نے فیض آباد کے قریب ڈیموکریسی پارک میں احتجاج اور دھرنوں کی اجازت دے رکھی ہے اس کے علاوہ شہر کی کسی جگہ پر دھرنا نہیں دیا جا سکتا۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پہلے بھی پی ٹی آئی والے آگئے تھے اور امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہوئی ۔عدالت نے درخواست گزار کو ایک ہفتے کا وقت دیا ہے کہ وہ اپنا وکیل کر لیں اور درخواست پر تیاری کرلیں ۔عدالت نے حکم دیا اگر اسلام آباد انتظامیہ کے پاس درخواست آتی ہے تو وہ قانون کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہو گی۔ عدالت نے فوری طور پر دھرنے کو روکنے کی استدعا مسترد کردی اور قرار دیا جب تک اسلام آباد انتظامیہ کو باضابطہ تحریری طور پر درخواست نہیں آتی اس درخواست پر کاروائی آگے نہیں بڑھائی جا سکتی۔عدالت نے اسلام آباد انتظامیہ کو حکم دیا وہ قانون کے مطابق کاروائی کو آگے بڑھائیں اور باضابطہ طور پر درخواست آتی ہے تو اس حوالہ سے جو قانون پہلے سے درج ہے اور جو ڈیموکریسی پارک پہلے سے ڈکلئیر کیا گیا تھا وہیں پر کسی بھی شہری کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کا حق حاصل ہے۔ عدالت عالیہ نے جمیعت علمائے اسلام(ف) کے آزادی مارچ اور دھرنے کیخلاف دائر درخواست پر سماعت قبل ازوقت قرار دے کر ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے درخواست گزار حافظ احتشام کی اپیل پر سماعت کی تاہم وہ اپنے دلائل سے عدالت کو مطمئن نہیں کر سکے۔درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ مولانا فضل الرحمان تحفظ ختم نبوت اور ناموس رسالت کا نام استعمال کر رہے ہیں، اس سے قبل فیض آباد میں بھی اسی نوعیت کا دھرنا ہو چکا ہے جس پر عدالت عظمیٰ نے ایک فیصلہ دیا تھا۔حافظ احتشام نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ڈیموکریسی پارک کو دھرنے کے لیے مختص کر رکھا ہے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ احتجاج کرنا بنیادی حق ہے لیکن باقیوں کا بھی حق ہے کہ وہ اس سے تنگ نہ ہوں، 2014 میں بھی اس عدالت نے کہا تھا کہ مظاہرین کا حق ہے کہ وہ دھرنا دے سکیں۔عدالت عالیہ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ 2014 میں اس عدالت نے پی ٹی آئی دھرنے پر حکم دیا تھا کہ مجسٹریٹ اجازت دے اور یہ ڈپٹی کمشنر کا کام ہے کہ وہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرے۔جج نے ریمارکس دیے کہ دھرنا دینے والے سپریم کورٹ اور اس عدالت کے فیصلے کے پابند ہیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی مارچ کے وقت بھی ڈپٹی کمشنر کو اس وقت بھی ہم نے پابند کیاتھا کہ دھرنے والے اجازت لیں ورنہ نہیں کرسکتے، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا کام ہے کہ وہ دھرنے کوریگولیٹ کرے۔عدالت نے سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔

مزیدخبریں