سرینگر(این این آئی+ اے پی پی)مقبوضہ کشمیر میں سخت فوجی محاصرے کی وجہ سے معمولات زندگی مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں۔کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق فوجی محاصرے کے دوران انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بند اور سڑکوں پر ٹریفک کی آمدورفت معطل جبکہ تمام کاروباری ادارے بھی بند ہیں۔ سکول اور سرکاری دفاتر ویرانی کا منظر پیش کررہے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ادھر صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ دوماہ کے لاک ڈائون سے مقبوضہ کشمیر کی معیشت کو ایک ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ سرینگر کے معروف تاجر مشتاق احمد چایا نے کہاکہ وادی کشمیر میں تقریباً 3ہزار ہوٹل ہیں اوروہ سب خالی پڑے ہیں۔ انہیں قرضہ بھی ادا کرنا ہے اور روز مرہ کے اخراجات بھی پورے کرنے ہیں۔ سرینگر کے جھیل ڈل میں تقریباًایک ہزار ہائوس بوٹس بھی خالی ہیں جبکہ صرف قالین سازی کے شعبے سے وابستہ 50ہزار سے زائد افراد بے روز گار ہوچکے ہیں۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں مشہور وادی کشمیر کے سیب ابھی تک درختوں پر پڑے ہیں کیونکہ دکانیں اور سرد خانے بند ہونے کے باعث سٹور کرنے کی سہولت نہ ہونے اورٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے کاشتکار اپنے سیب وادی کشمیر سے باہرلے جانے سے قاصرہیں۔ اطلاعات کے مطابق وادی کشمیر میں ہنر مند کاریگروں کی بھی کمی ہے کیونکہ لاک ڈائون شروع ہونے کے بعد 4لاکھ سے زائد غیر کشمیری کاریگر علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ وادی کشمیر کے عوام نے کشمیر کے لیے سفری پابندی اٹھانے کے گورنر کے احکامات کو مضحکہ خیز قراردیا ہے جس کی وجہ سیاح علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ینگ مینز لیگ کے نائب چیئرمین زاہد اشرف نے مقبوضہ کشمیر میں پابندیاں نرم کرنے کا بھارتی دعویٰ مسترد کرتے ہوئے اسے سفید جھوٹ ، حقائق چھپانے اور دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش قراردیا ہے۔ کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق زاہد اشرف نے ایک بیان میں کہاکہ مقبوضہ علاقے میں نہ صرف مکمل لاک ڈائون ہے بلکہ 90لاکھ معصوم کشمیریوں کا ڈیجیٹل اور مواصلاتی رابطہ مکمل طورپر منقطع ہے۔