امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعتراف کیا ہے کہ مشرقِ اوسط میں امریکا کی فوجی مداخلت ایک بدترین فیصلہ تھا اور وہ وہاں سے اپنے فوجیوں کی محفوظ واپسی کو یقینی بنا رہے ہیں۔وائٹ ہاوس نے گذشتہ اتوار کو شام کے شمالی علاقے میں موجود پچاس سے ایک سو تک امریکا کی خصوصی فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔اس فیصلے پر صدر ٹرمپ کو امریکا کی دونوں جماعتوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ سے تعلق رکھنے والے ارکان کانگریس کی کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ امریکا نے مشرقِ اوسط میں جنگوں اور پولیس نظام پر اسّی کھرب ڈالر خرچ کردیے ہیں۔ہمارے ہزاروں عظیم فوجی مارے گئے ہیں یا بری طرح زخمی ہوئے۔دوسری جانب بھی لاکھوں لوگ مارے گئے ہیں۔مشرقِ اوسط میں جانا(فوجی مداخلت) ہمیشہ کے لیے ایک بدترین فیصلہ تھا۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کی تاریخ میں ہم جھوٹے اور اب غیر ثابت شدہ وعدوں کی بنا پر جنگوں میں کودے ہیں۔(عراق میں) وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار۔لیکن ایسا کچھ نہیں ملا تھا۔اب ہم دھیرے دھیرے اور محتاط انداز میں اپنے عظیم فوجیوں اور فوج کو وطن میں واپس لا رہے ہیں۔ہماری توجہ ایک بڑی تصویر پر مرکوز ہے۔ریاست ہائے متحدہ امریکا پہلے سے کہیں زیادہ عظیم تر ہے۔امریکی صدر 2003ء میں امریکا کی عراق پر چڑھائی کا حوالہ دے رہے تھے۔ان کے پیش رو ری پبلکن صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا واویلا کیا تھا اور انھیں جواز بنا کرعراق پر حملہ کردیا تھا۔امریکا اور اس کے اتحادی برطانیہ کو عراق میں ایسے کوئی ہتھیار تو نہیں مل سکے تھے۔ان دونوں ملکوں کی مسلح افواج نے عراق کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا۔البتہ ان کا ایک مقصد پورا ہوگیا تھا اور وہ صدر صدام حسین کی حکومت کے خاتمے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن عراق آج بھی اس جنگ کا زخم خوردہ ہے۔وہ اس کے نتیجے میں عدم استحکام اور گوناگوں مسائل سے دوچار ہے اور وہاں وقفے وقفے سے مسلح شورشیں برپا ہوتی رہتی ہیں۔