عیشتہ الراضیہ پیرزادہ
چاول اوریزا سٹایوا نامی پودے کا ایک دالیہ بیج ہے جو گھاس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ دنیا میں جہاں گوشت خور ہیں وہیں سبزیوں کے دلدادہ بھی ہیں جو سبزیوں کو خاص طورپر چاولوں کے ساتھ کھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر ممالک چاول کے ساتھ مچھلی کو مرغوب غذا مانتے ہیں۔
چاول غذائیت اورتوانائی کا بڑا ذریعہ ہے جسے خاص طور پر جنوب مغربی ایشیا، مشرق وسطٰی، لاطینی امریکہ مشرقی اور جنوبی ممالک میں باقاعدگی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔چاولوں کے شوقین افراد کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خوشبو دار لمبے چاولوں کا انتخاب کریں۔ویسے توچاولوںکی بہت سی اقسام ہیں لیکن باسمتی چاول اپنی خوشبو اور کھِلے کھِلے انداز کی بدولت دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ ایک خاص بات اس کی یہ بھی ہے کہ یہ صرف برصغیر میں پیدا ہوتا ہے۔
باسمتی چاول کی کاشت کی کوشش افریقہ اور امریکہ میں بھی کی گئی تاہم وہاں پیدا ہونے والی فصل میں وہ خصوصیت اور ذائقہ ناپید تھا جو پاکستان اور انڈیا میں کاشت ہونے والے روایتی علاقوں کی فصل میں پایا جاتا ہے۔برصغیر میں باسمتی چاول کی پیداوار کی تاریخ لگ بھگ 200 برس پرانی ہے۔ اس کی پیداوار برصغیر کے مخصوص حصوں تک محدود تھی اور یہاں پیدا ہونے والے باسمتی چاول الگ ذائقہ اور خوشبو رکھتے ہیں۔ اس کی پیداوار کا تاریخی علاقہ چناب اور ستلج دریاؤں کا درمیانی حصہ ہے۔پاکستان میں باستمی کی پیداوار کے شواہد 1766 میں لکھے گئے وارث شاہ کے کلام سے ملتے ہیں، انگریز دور میں کالاشاہ کاکو میں باستمی پیدا کیے جانے کے شواہد ہیں۔
موجودہ دورمیںپاکستان میں سیالکوٹ، نارووال، شیخوپورہ، گجرات، گوجرانوالہ، منڈی بہائوالدین اور حافظ آباد کے اضلاع باسمتی چاول کی پیداوار کے حوالے سے تاریخی حیثیت رکھتے ہیں اور دوسری جانب انڈیا میں مشرقی پنجاب، ہریانہ، جموں و کشمیر کے علاقوں میں تاریخی طور پر اس کی کاشت کی جاتی رہی ہے۔تاہم موجودہ دور میں باسمتی چاول کی کاشت کے روایتی علاقوں سے باہر بھی اس کی کاشت کی جاتی ہے تاہم اس کی خصوصیات میں اس کی کاشت کے روایتی علاقوں کی پیداوار سے تھوڑا فرق ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں باسمتی چاول (پاکستان ) کی زیادہ مانگ ہے۔ بہ نسبت انڈیا کے۔پاکستان سے برآمد کیے جانے والے چاولوں میں باسمتی چاول کی بڑی مارکیٹ یورپی یونین کے ممالک ہیں۔ یورپی یونین کے ممالک کو باسمتی چاول کی برآمد پاکستان کے علاوہ انڈیا سے بھی کی جاتی ہے، تاہم حال ہی میں انڈیا نے یورپی یونین میں چاول کی باسمتی کوالٹی کے حقوق اپنے نام محفوظ کروانے اور اسے ایک انڈین پراڈکٹ قرار دینے کی درخواست جمع کرائی ہے جو یورپی یونین کے جرنل میں شائع کی گئی ہے۔
انڈیا نے جیوگرافیکل انڈیکشنز (جی آئی) قوانین کے تحت یہ درخواست جمع کرائی ہے جس میں باسمتی چاول کو ’’خالص انڈین پراڈکٹ‘‘ قرار دینے کا کہا گیا ہے۔پاکستان میں چاول برآمد کرنے والے شعبے کے افراد انڈیا کے اس دعوے کو ’ناجائز‘ قرار دیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر انڈیا ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ ملک سے باسمتی چاول کی برآمد کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو گا اور یورپی یونین میں پاکستانی باسمتی چاول کا نعم البدل ثابت ہو گا۔
پاکستان سے چاول کی تمام اقسام کی برآمدات گذشتہ مالی سال میں دو ارب ڈالر سے زیادہ تھیں۔ پاکستان نے گذشتہ مالی سال میں چالیس لاکھ ٹن سے زائد چاول بیرون ملک بھیجا۔ برآمد کیے جانے والے اس چاول میں پانچ لاکھ ٹن چاول باسمتی تھا جبکہ باقی 35 لاکھ ٹن دوسری اقسام کا چاول تھا۔پاکستانی چاول کے بڑے درآمد کنندگان میں چین، کینیا اور یورپی یونین کے ممالک شامل ہیں۔ کینیا میں پاکستان کے غیر باسمتی چاول کی زیادہ کھپت ہے۔ چین میں تمام اقسام کا چاول بھیجا جاتا ہے تو یورپی یونین پاکستان سے برآمد ہونے والے باسمتی چاول کا بڑا درآمد کنندہ ہے۔
یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ باسمتی چاول انڈیا اور پاکستان دونوں کی پروڈکٹ ہے اور انڈیا کے اس اقدام کے پیچھے بد نیتی واضح ہے۔ اگر اس تباہ کن اقدام کا منظر سامنے رکھا جائے کہ جس میں انڈیا اسے اپنے نام رجسٹرڈ کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ایساممکن انڈیا دعویٰ کرے یہ ہمارا چاول ہے اور آپ اس کا نام استعمال نہیں کر سکتے اور کسی برانڈ کا نام استعمال کرنے پر رائلٹی دینا پڑتی ہے۔اس درخواست کے خلاف جانے کے لیے پاکستان کے پاس تین مہینے کا وقت ہے اور پاکستان متعلقہ فورم سے رجوع کر کے باسمتی چاول پر انڈیا کا دعویٰ غلط ثابت کر سکتا ہے۔
انڈیا نے یورپی یونین میں اپنی درخواست جی آئی قوانین کے تحت دی ہے۔ جی آئی قوانین ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے رکن ممالک کو بنانے ہوتے ہیں جن کے تحت ایک خاص پراڈکٹ کے اصل محل وقوع اور اس کی خصوصیات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
جی آئی قوانین ایک ملک میں پیدا کردہ مصنوعات کو اس بنیاد پر تحفظ فراہم کرتے ہیں کہ یہ اسی ملک میں پیدا ہونے والی اشیا ہیں جن کا رنگ، ذائقہ، خوشبو، کوالٹی وغیرہ تاریخی طور پر ایک خاص جغرافیائی حدود سے وابستہ ہے۔انڈیا نے جی آئی قوانین کا نفاذ کچھ سال پہلے کر لیا تھا جب کہ پاکستان میں ان قوانین کو اس سال مارچ میں منظور کیا گیا، تاہم ان کا نفاذ ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔
پاکستان رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق سینیئر وائس چیئرمین توفیق احمد خان کا کہنا ہے کہ انڈیا نے اس سلسلے میں تقسیم ہند سے پہلے کی اْن دستاویزات اور ڈکشنریوں سے مدد لی ہے جس میں باسمتی چاول کو انڈیا کی پیداوار لکھا گیا تھا۔انھوں نے کہا تقسیم سے پہلے موجودہ پاکستان کے علاقے بھی برٹش انڈیا کا حصہ تھے جہاں باسمتی چاول پیدا ہوتا ہے لیکن انڈیا چالاکی سے صرف ہندوستان کا لفظ استعمال کر رہا ہے جو پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے کی دستاویزات اور ڈکشنریوں میں لکھا گیا ہے۔
حکومت پاکستان انڈیا کے اس اقدام کے بعد متحرک ہوئی ہے اور اس سلسلے میں مشاورت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے کہ کس طرح انڈیا کے اس اقدام کا عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کیا جائے۔ پاکستانی حکام پْرامید ہیں کہ انڈیا کا یہ اقدام ’شرارت‘ تو ہو سکتا ہے تاہم وہ باسمتی چاول کے جملہ حقوق اپنے نام کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا اور اس سلسلے میں پاکستان جلدیورپی یونین میں مسئلہ اٹھا ئے گا۔ اس سلسلے میں پاکستان میں پارلیمان کے ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی نے اس پر ایک اجلاس میں بحث کی کہ کیسے اس انڈین اقدام کے مقابلے میں یورپی یونین میں یہ معاملہ اٹھیایا جا ئے۔
یورپی یونین نے بھارتی دعوے کی تشہیر اپنی ویب سائٹ پر کی ہے مگر یورپی قانون کے مطابق 90 روز میں بھارتی دعوے کو چیلنج کیا جاسکتا ہے، اگر یورپی یونین میں بھارت کا لیبل باسمتی چاول پر لگ گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان یورپ کو یہ چاول باسمتی کے نام سے برآمد نہیں کرسکے گا جو کہ پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوگا۔
خوشبودار باسمتی چاول کی صرف بھارت میں پیداوار کا جھوٹا دعویٰ
Oct 10, 2020