مولانا فضل الرحمن سیاست کے فعال کردار کا نام ہے حزب اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں ان سے صرف نظرکر نا کسی حکومت کے لیے ممکن نہیں سیاست کے میدان میں آنے سے پہلے دینی علوم میں قابل رشک استعداد حاصل کی غیر معمولی صلاحیت و بصیرت انہیں ورثہ میں ملی ہے جانشین مفتی محمود کے بارے میں ایک معروف کالم نویس اور صاحب طرز انشاپردازنے لکھا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو ایسی استدلالی صلاحیت حاصل ہے کہ وہ چلچلاتی دوپہر کو ابر آلود موسلادھاربارش ثابت کرناہو تو با آسانی کر سکتے ہیں مگر مولانا کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی بات کا مکمل ابلاغ نہیں ہو پاتالاکھوں محبین و مقتدین صدقے واری جاتے ہیںبے شمارلوگ ان سے اختلاف و عداوت کے روگ میں مبتلا ہیں اس طرح وہ ہر شخص کے دل میں گھر کیے ہوئے ہیں ۔
اسلام کی سرفرازی اور اس کے نفاذ کے علمبردار ہیں اس لئے اہل وطن کی ایک بڑی اکثریت کی آنکھوں کا تارا جبکہ دین بیزار طائفے کے دل کا کانٹا بنے ہوئے ہیں نام نہاد لبرل اور سیکولر ان کے وجود سے نالاں ہیں کہ ان کی دال نہیں گلتی گفتگو اور مذاکرات کی میز پر مقابل کیلئے پسپائی اور شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا سیاست کی شاطرانہ چالیں انہیں مات نہیں دے سکتیں چودہ اکتوبر 1980کو مولانا مفتی محمود کا سانحہ ارتصال پیش آیا اور نومبر 1980میں خالق دینا ہال کراچی میں منعقدہ تعزیتی اجلاس میں مولانا فضل الرحمن کی تقریب رونمائی ثابت ہواحضرت مفتی محمود کی جدائی کے صدمے سے نڈھال جماعتی کارکن فضل الرحمن کی شکل میں نوجوان مفتی محمود کو دیکھ کر نہال ہو گئے یوں 27سالہ نوجوان عالم دین لوگوں کی توجہ اور اُمید کا مرکز بن گیا 35سال سے مسلسل سرگرم عمل نوجوان قائد امتداد زمانہ اور گردش شام و سحر کے نتیجے میں سفید ریش ہوگیا مگر عزم جواں ہے اور آمادہ پیکار بھی ۔مولانا اپنے تدبر،فہم وفراست اور سیاستی بصیرت کے وصف سیاسی رہنمائوں میں منفرد حیثیت سے نمایاں ہیں چنانچہ لیڈروں کے انتخاب میں ہمیشہ احتیاط کریں آدھی جنگ تو لیڈروں کے صحیح انتخاب سے ہی فتح ہو جاتی ہے محاذ جنگ خواہ کتنا ہموار اور مقابلے کے لیے لشکر چاہے جتنا تیار ہو اگر کمانڈر مخلص،حوصلہ مند،عالی دفاع اور ماہر امور حرب نہ ہو تو جنگ جیتنا تو کُجاشرم ناک شکست سے بچنا ناممکن ہوتا ہے یہ معمول ہے کہسپاہی لڑا کر اور جم کر لڑے اور خون کا دریا عبور کرے فتح کا سہرا اور کریڈٹ ہمیشہ کمانڈر کے حصہ میں آتا ہے اگر سپاہی نکمے اور بزدل نکلیں اور پسپا ہو جائیں تو شکست کا داغ کمانڈر کے ماتھے پر لگتا ہے آج کا موجودہ حکمران آج ہمارے ملک کے نام نہاد معززین کے اسلاف جب انگریز سامراج کی چاکری کر رہے تھے تو اس وقت علمائے دیوبند نے تحریک ریشمی رومال برپا کرکے اشعار کے پائوں اُکھاڑ دیے تھے مگر اپنے زمانے کی عظیم ترین بین الاقوامی تحریک کا میڈیا تو کجا ہماری درسی کتب میں تذکرہ نہیں ہے کہ مبادا عوام علماء کا احترام بڑھ جائے ۔چنانچہ بد ترین مہنگائی کے ساتھ ملک میں سیاسی جنگ بھی عروج پر ہے اور مولانا فضل الرحمن جیسے بلند نگاہ ،عالی ظرف، دیانتدار، امین اور جرات مند لیڈر کا ملک کی موجودہ قیادت سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو آپ کی شخصیت ان سب میں نمایاں نظر آتی ہے پی ڈی ایم کی سربراہی ملنے کے بعد مولانا فضل الرحمن حکومت مخالف تحریک کے تازہ دم ہو گئے ہیں اور حکومت کے خلاف ابھی تحریک کی شروعات ہوئی ہیں کہ جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف آمد ن سے زائد اثاثوں کے بنانے کے الزام میں انکو ائری شروع کر دی گئی او ر نوٹس بھی بھیجا گیا مگر نیب نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے وضاحت جاری کی کہ ہماری طرف سے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا اور مولانا نے ببانگ دہل کہا کہ میں نیب میں پیش ہو جائونگا اور جن جائیدادوں کو مجھ سے منسوب کیا گیا ہے وہ نیب سے لیکر جائونگا جنوری 2021میں شروع ہونے والا مارچ حکومت کے لیے خطرناک ثابت ہو گا لہذا حکومت اور مقتدر حلقے جنوری کا انتظارکیے بغیر افہام و تفہیم سے راستہ نکالیں تاکہ جمہوریت بھی بچ جائے اور ملکی حالات انارکی طرف نہ پھیلنے پائیں۔