سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ۔۔۔چند تجاویز

1977ء میں الیکشن میں دھاندلی پر بھٹو صاحب کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں جن میں نمایاں رہنما میاں طفیل محمد‘ پیرپگاڑا‘ نوابزادہ نصراﷲ خان‘ ایئرمارشل (ر) اصغر خان‘ ولی خان‘ مولانا شاہ احمد نورانی‘ ولی خان ‘ مفتی محمود اور چوہدری ظہور الٰہی شامل تھے‘ نے تحریک کا آغاز کیا۔ تحریک کے آغاز پر اگر سیاستدان ہوش کے ناخن لیکر باہمی مسئلے افہام و تفہیم سے حل کرلیتے اور دھاندلی کے متعلق حکومت اپوزیشن باہمی بات چیت سے معاملہ حل کرلیتے توملک مارشل لاء سے بچ جاتا اور بدقسمتی سے ہمیشہ سیاستدانوں کے اپنے رویوں سے ہی ملک میں مارشل لاء لگا ہے۔ 1977ء کی تحریک کے آغاز میں تو لوگ اپوزیشن کی کال پر سڑکوں پر نہیں آرہے تھے لیکن جب کراچی نشتر پارک میں عوامی تحریک کے جلسے میں مولانا شاہ احمد نورانی نے اقتدار میں آکر نظام مصطفٰیﷺ کے نفاذ کا وعدہ کیا تو جیسے تحریک میں جان پڑ گئی اور پورے ملک کی عوام سڑکوں پر آگئے جس سے ملک کے نظام کا چلانا مشکل تر ہوگیا۔ پاکستانی قوم دین کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے والی قوم ہے اور 1977ء کی تحریک اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتیں اپنا موثر وجود رکھتی ہیں۔
1977ء کی تحریک کے نتیجے میں بھٹو صاحب کو قید کرلیا گیا اور شراکت جرم کی دفعہ جس کے تحت پہلے کبھی سزائے موت نہیں دی گئی تھی‘ لاگو کرکے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا عدالتی قتل کیا گیا کیونکہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیااور قادیانیوں کو پاکستان کے آئین میں غیر مسلم قرار دیا جس سے امریکہ‘ اسرائیل سمیت اسلام دشمن تمام قوتیں ان کے خلاف ہوگئیں اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے ججوں نے اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ دیا جس کا اعتراف سپریم کورٹ کے بنچ میں موجود سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس نسیم حسن شاہ نے ریٹائرمنٹ کے بعد جیو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا اور کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے باوجود نصرت بھٹو‘ بے نظیر بھٹو‘ آصف زرداری یا بلاول نے کبھی بھی براہ راست فوج کے خلا ف بات نہیں کی بلکہ انہیں جب کبھی کسی جرنیل سے مخاطب ہونا پڑا انہوں نے ہمیشہ جنرل ضیاء الحق‘جنرل مشرف کہہ کر اپنی مخالفت کا اظہار کیا اور کبھی بھی پوری فوج کے خلاف بات نہیں کی۔ حتٰی کہ بھٹو صاحب کے عدالتی قتل اور بے نظیر بھٹو کی بم دھماکے میں شہادت کے باوجود پیپلزپارٹی نے ہمیشہ فوج کی تعظیم کی اور بطور ادارہ کبھی بھی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا حالانکہ بھٹو صاحب اور بے نظیر صاحبہ ‘ دونوں کی شہادت فوجی ادوار میں ہوئی۔ اسی لئے محترم مجید نظامیؒ مرحوم نے آصف زرداری کو ’’مرد حر‘‘ قرار دیا تھا۔
پیپلزپارٹی کے برعکس ن لیگ کا رویہ ہمیشہ اداروں کے خلاف رہا ہے حالانکہ ادارے ہی انہیں اقتدار میں لائے اور ترقی کی منازل طے کراتے کراتے وزیراعظم تک پہنچایا لیکن بدقسمتی سے کبھی بھی میاں نوازشریف کا رویہ عسکری ادارو ں سے مناسب نہیں رہا۔ ن لیگ کے قائدین جیلوں اور جلاوطنی میں ہی قابو سے باہر ہوکر مجموعی طور پر عسکری اداروں کو تنقید کا ہدف بناتے ہیں۔ بجائے اسکے کہ وہ جنرل مشرف یا کسی جرنیل کا نام لیکر تنقید کریں‘ وہ بطور مجموعی مسلح افواج کے خلاف بات کرتے ہیں۔ حالانکہ پیپلزپارٹی نے اپنے قائدین کی لاشیں اٹھانے کے باوجود اس طرح کی زبان استعمال نہیں کی جس طرح کی زبان ن لیگ استعمال کر رہی ہے۔تمام محب وطن عوام اپنی مسلح افواج سے بے پناہ محبت اور ان کی تعظیم کرتے ہیں اور ہمارے یہ بات ہمارے ایمان کاحصہ ہے کہ پاکستان کا استحکام‘ سربلندی اور دفاع ہماری مسلح افواج کے مرہون منت ہے اور ایسی صورتحال میں جب سی پیک روکنے کے لئے دنیا بھر کی طاقتیں پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوں تو کوئی بھی لیڈر اگر پاکستان کا عسکری اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا ہے تو یہ عوام کسی بھی صورت اس کے بیانیہ کو اہمیت نہیں دیں گے بلکہ فوج کے خلاف بیان کو ملک دشمنی ہی قرار دیا جائے گا اور لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ یہ سب بیان بازی بھارتی ایماء پر کی جارہی ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے موجودہ حکومت کو دھاندلی کی پیداوار قرار دیا جارہا ہے ۔ ایسے میں اپوزیشن کو چاہئے تھا کہ وہ موجودہ اسمبلیوں میں بیٹھنے کے بجائے استعفٰی دے دیتے لیکن یہ موجودہ اسمبلیوں میں براجمان بھی ہیں اور پارلیمنٹ کو دھاندلی کی پیداوار بھی قرار دے رہے ہیں۔ اپوزیشن ابھی تک منتشر نظر آتی ہے حالانکہ وہ تمام ایک پیج پر ہوں تو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے بآسانی ان ہاؤس تبدیلی لاسکتے ہیں۔
حکومت کی کارکردگی سے بھی عوام قطعی طور پر مایوس ہے اور حکومتی ترجمانوں کے ہر شام ٹیلی ویژن پر بلند بانگ دعوؤں کے برعکس کارکردگی صفر نظر آتی ہے کیونکہ خوراک‘ بجلی‘ گیس سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے بعد دواؤں کی قیمتوںمیں بے پناہ اضافہ کردیا گیا ہے۔وزراء کی زبان بندی بہت ضروری ہے کیونکہ یہ روزانہ شام کو اپوزیشن کو طیش دلاتے ہیں جس کی وجہ سے اپوزیشن کے لوگ طیش میں آکر اداروں کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ عوام میں جس قدر بے چینی ہے اگر اپوزیشن متحد ہوکر تحریک کے لئے نکل کھڑی ہوئی اور مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں تحریک ضرور کامیاب ہوگی کیونکہ انکے پاس ایسے لوگ موجود ہیں جو روس اور امریکہ کو 40اتحادیوں سمیت طویل جنگ میں شکست سے دوچار کرچکے ہیں تو یہاں ان کے لئے تحریک کامیاب بنانا کوئی مسئلہ نہیں۔موجودہ حالات میں تنہا حکمراں جماعت بھی مسائل کے حل کی اہلیت کھورہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن