لاہور(کامرس رپورٹڑ)آئل مارکیٹنگ ایسو سی ایشن آف پاکستان (OMAP) نے 2020 ء میں ہونے والی پٹرولیم مصنوعات کی نام نہاد قلت کا ذمہ دار آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ٹھہرانے کے الزام کو یکسر مسترد کردیا ہے اور تحقیقات کے نام پر کمپنیوں کا معاشی قتل، اداروں کی جانب سے مسلسل ہراساں کئے جانے کے معاملے پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے جس کے باعث ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہورہی ہے۔آئل مارکیٹنگ ایسو سی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین طارق وزیر علی نے اپنے بیان میں کہا کہ حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے نام نہاد قلت کا الزام آئل مارکیٹنگ کمپنیز پر لگایا جا رہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ تحقیقات کے لئے بہت سارے حقائق کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ جب پٹرولیم مصنوعات کی قلت ہوئی اس وقت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کریش ہوئی اورایک بیرل کی قیمت 10 امریکی ڈالر سے کم ہو گئی تھی لیکن غیر متوقع طور پر وزارت توانائی کے پٹرولیم ڈویڑن نے پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر اچانک پابندی لگا دی تھی۔ یہ اس وقت کیا گیا جب پوری دنیا پٹرول اور ڈیزل خرید رہی تھی اور اپنے ٹینک بھر رہی تھی جبکہ پاکستان اس وقت کے ڈی جی پٹرولیم کی جانب سے لگائی گئی پابندی کی وجہ سے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے تگ و دو کر رہا تھا۔طارق وزیر علی کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر OMAP کے مختلف ارکان کے متعدد خطوط کے باوجودوزارت توانائی پٹرولیم ڈویڑن نے نہ صرف تجاویز پر توجہ دی بلکہ تمام انتباہات کوبھی نظر انداز کردیا۔انکا کہنا تھا کہ جب پٹرلیم مصنوعات کی کھپت کے اعداد و شمار سامنے آنا شروع ہوئے تو پٹرولیم ڈویڑن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور جب پابندی ہٹائی گئی تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان، چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے اپیل کی کہ چھوٹی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو تحفظ فراہم کی جائے نہ کہ ان کو ایف آئی اے، اوگرا، اور آڈیٹر جنرل کی جانب سے ڈرایا دھمکایا جائے اور ایسے الزامات لگائے جائے جنکا مارکیٹنگ کمپنیوں سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے خلاف بے جا کاروائیوں کو ختم کیا جائے، لائسنسوں کی فوری تجدیدکی جائے تاکہ وہ اپنے کاروبار کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اسے مزید بڑھائیں۔آئیل مارکیٹنگ کمپنیوں کے لئے بھی وہی ٹیکس سٹرکچر لایا جائے جو دیگر کارپوریٹ اداروں کے لئے ہے اور 0.75÷ ٹرن اوور ٹیکس کو روکا جائے۔ روپے کی گھٹتی قیمت سے اس انڈسٹری ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے کیونکہ انڈسٹری پہلے ہی 60 ارب روپے سے زائد کا نقصان اٹھا چکی ہے اور اس بے ضابطگی کو دور کرنے کے لیے فوری طور پر ایک طریقہ کار نافذ کیا جانا چاہیے