افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے یوں تو اس کے تمام ہمسایے تشویش کا شکار ہیں لیکن پاکستان کو اس لیے زیادہ تشویش لاحق ہے کیونکہ بین الاقوامی برادری افغانستان میں قیام امن کے لیے سب سے زیادہ انحصار پاکستان پر ہی کرتی ہے۔ علاوہ ازیں، پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کا مسکن بھی ہے۔ نئی صورتحال میں بھی جو لوگ افغانستان سے نقل مکانی کررہے ہیں ان میں سے غالب اکثریت کا رخ پاکستان کی طرف ہی ہے۔ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے بھی پاکستان پر ہی زور دے رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں حالات کی بہتری کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرے اور وہاں انسانی بنیادوں پر پہنچائی جانے والی امداد کے لیے بھی انتظامات کرے۔ اندریں حالات، پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے تشویش جائز ہے۔
اسی سلسلے میں قومی سلامتی کمیٹی کا34 واں اجلاس جمعہ کو وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں وفاقی کابینہ کے متعلقہ ارکان، تمام سروسز چیفس اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ قومی سلامتی کمیٹی نے ایک خودمختار، مستحکم اور پرامن افغانستان کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے مدد کرے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی کہ افغانستان سے متعلق انسانی امداد کی فراہمی اور پاکستان میں کسی بھی قسم کے منفی اثرات کو روکنے اور مؤثر بارڈر مینجمنٹ کے لیے جانے والی کوششوں کو ہم آہنگ کرنے کے لیے خصوصی سیل قائم کیا جائے۔ اجلاس میں افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا گیااور وزیراعظم کو علاقائی سلامتی کی صورتحال بالخصوص افغانستان میں ہونے والی پیش رفت اور اس کے پاکستان پر ممکنہ اثرات پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کے دوران افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ تعمیری، سیاسی اور اقتصادی بات چیت کے حوالے سے عالمی رابطوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔
ادھر، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے اپنے دو روزہ دورۂ پاکستان کے موقع پر جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں ملاقات کی جس کے دوران آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان، افغانستان میں امن و استحکام کے لیے ہرممکن کوشش کے لیے پرعزم ہے اور سب کی شمولیت کے ساتھ والی افغان حکومت کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ مسلح افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، ملاقات کے دوران باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی کی صورتحال اور افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ آرمی چیف نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان بامعنی دوطرفہ کثیر الجہتی تعلقات کو برقرار رکھنے پر زور دیا۔ امریکی نائب وزیر خارجہ نے افغان صورتحال میں پاکستان کے کردار اور خاص طور پر افغانستان سے غیر ملکیوں کے کامیاب انخلا کی کارروائیوں میں مدد کو سراہا۔ وینڈی شرمن نے علاقائی امن کے لیے پاکستان کے ساتھ کام جاری رکھنے کا عہد کیا۔ امریکی سفارتخانے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بحیثیت رکن جوبائیڈن انتظامیہ وینڈی شرمن کا پہلا دورۂ پاکستان پرعزم پاک امریکہ تعلقات کا مظہر ہے۔
ایک طرف پاکستان کی طرف سے افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کے لیے کاوشیں جاری ہیں تو دوسری جانب افغانستان میں مختلف امن دشمن اپنی تخریبی کارروائیوں کے ذریعے قیامِ امن کے راستے میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک کارروائی افغانستان کے صوبہ قندوز کے دارالحکومت قندوز میں نماز جمعہ کے دوران کے دوران ہوئی جس میں ایک خودکش بم دھماکے کی وجہ سے کم از کم 60 نمازی جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے۔ حملے کی ذمہ داری داعش خراسان گروپ نے قبول کر لی ہے۔ امریکی فوج کے انخلا کے بعد یہ کسی مذہبی مقام پر رواں ہفتے کے دوران ہونے والا تیسرا مہلک ترین حملہ ہے۔ مقامی میڈیا اور غیرملکی نیوز ایجنسی نے ہلاکتیں 50 بتائی ہیں جبکہ ترک خبر رساں ایجنسی نے افغانستان کے مقامی ریڈیو کے حوالے سے کہا ہے کہ دھماکے میں 100 کے قریب افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ پاکستان نے قندوز کی مسجد پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ حملے میں جانی نقصان پر دکھ ہے۔ پاکستان کے عوام اور حکومت افغان بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ حملے میں زخمی افراد کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔
افغانستان میں صورتحال کا بگاڑ کا سبب وہ عناصر ہیں جو افغان سرزمین کو ہمسایہ ممالک کے خلاف تخریب کاری کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے عناصر کسی بھی صورت میں افغانستان میں امن و امان قائم نہیں ہونے دیں گے۔ بھارت سمیت کئی ممالک نہ صرف ایسے عناصر کی پشت پناہی کررہے ہیں بلکہ انہیں وہ سب کچھ فراہم بھی کررہے ہیں جس کی مدد سے وہ افغانستان کو غیر مستحکم کر کے بالعموم اس کے تمام ہمسایہ ممالک اور بالخصوص پاکستان کے مسائل میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کو اس سلسلے میں صرف بیانات ہی جاری نہیں کرنے چاہئیں بلکہ انہیں آگے بڑھ افغانستان میں امن و امان کے قیام کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے اور اس حوالے سے پاکستان کی بھی بھرپور مدد کی جانی چاہیے۔ افغانستان کا عدم استحکام صرف پاکستان کے لیے ہی مسائل کا باعث نہیں بنے گا بلکہ اس سے خطے کے تمام ممالک متاثر ہوں گے اور یہ سلسلہ صرف اس خطے تک نہیں رکے گا بلکہ اس کے اثرات مغرب تک بھی پہنچیں گے، لہٰذا مغربی دنیا کو یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان کے گھر محفوظ ہیں اور صرف پاکستان یا افغانستان کے دیگر ہمسایے ہی اس آگ کی لپیٹ میں آئیں گے۔
افغانستان: قیامِ امن کے لیے عالمی برداری کردار ادا کرے
Oct 10, 2021