میری الفت سوئی ہے یہاں
سونے دو جگا نہ، جگا نہ
یہ گیت ہے فلم ’’اوٹ پٹانگ ‘‘ کا ہے اورآواز لتا جی کی ہے۔ اس میں الفت، خواب اورنیند کی عکاسی بہت خوبصورت انداز میںکی گئی ہے۔اسکے ساتھ ہی اس میں دکھی دل اور لوگوںکے طنز کی کیفیت کی عکاسی انتہائی خوبصورت اندازمیں کی گئی ہے۔تاہم مدعا الفت، محبت ،خواب ارمان ہے۔عصر حاضر کے سیاستداں بالعموم دن رات مبالغہ آرائی کرتے ہیں اوردروغ گوئی سے کام لیتے ہیں۔ عام آدمی کو جیسے مجبوراً کبھی کبھار جھوٹ بولنا پڑ جاتا ہے اسی طرح سیا ست داں بھی بھول چوک سے سچ بولنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔سیاست کی غرض و غایت عام لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لانا ہے ‘‘، تبدیلی مثبت اور منفی دونوں ہوتی ہے اور فی الحال سیاستدان عوام کو اپنی خرابیوں کے مطابق ڈھال رہے ہیں۔ عوام نادانستہ ایک ہمہ گیر بگاڑ کا شکار ہورہے ہیں۔ بدقسمتی سیان کی زندگی میں سیاست کے سبب مثبت کے بجائے منفی تبدیلی واقع ہورہی ہے جو اس کا مقصد نہیں ہونا چاہیے۔ جمہوریت کا بنیادی ہدف معاشرے ک آخری فرد کو فائدہ پہنچانا ہے لیکن یہ صرف کتابوں اور تقریروں کی حد تک ہے۔ عمل کی دنیا کا اس واحد مقصد اپنا ذاتی مفاد بن گیا ہے۔کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے
وطن کی سر زمیں سے عشق و الفت ہم بھی رکھتے ہیں
کھٹکتی جو رہے دل میں وہ حسرت ہم بھی رکھتے ہیں
ضرورت ہو تو مر مٹنے کی ہمت ہم بھی رکھتے ہیں
یہ جرأت یہ شجاعت یہ بسالت ہم بھی رکھتے ہیں
آج کل ہر ایک کوئی پریشان ہے اور حالات کا رونا روتا ہے۔ یہ عجیب و غریب انکشاف ہے کیونکہ عام لوگوں کے نزدیک تو ساری پریشانیوں کو دور کرنے کا اور دکھ درد سے نجات کا سب سے سہل راستہ سیاسی کامیابی ہے۔تاہم یہ پرانی بات ہے فی الحال سیاسی کارکن کا پہلا دکھ تو یہ ہوتا ہے کہ اسے ٹکٹ نہیں مل سکا۔ جن کو مختلف پارٹیوں کا ٹکٹ مل جاتا ان میں ایک کے سوا سبھی انتخاب ہار جاتے ہیں اس لیے ناراض لوگوں کا دوسرا گروہ ان ناکام امیدواروں کا ہوتا۔ اسکے بعد کامیاب ہونیوالے سارے امیدوار برسرِ اقتدار جماعت میں نہیں ہوتے اس لیے جو حزب اختلاف میں ہوتے ہیں ان کو یہ غم ستاتا ہے کہ کوئی ان کو برسرِ اقتدار جماعت میں شامل کیوں نہیں کرلیتا۔ اسکے بعد ان لوگوں کی باری آتی ہے جو حزب اقتدار میں ہونے کے باوجود وزارت سے محروم ہوتے ہیں۔تاہم عام آدمی کے حالات توجوں کے توں ہی ہیں اور اس کیلئے وہی مہنگائی کاغم۔کسی شاعرنے دل کی بات اور خواہشات کو اس طرح سے بیان کیا کہ
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے
سچ ہے خواہشوںکی کوئی حد نہیں ہوتی ہے۔اکیسویں صدی کا انسان سائنسی ترقی کا غلام ہو چکا ہے۔ اس کے پاس اپنے لیے بھی وقت نہیں۔ مشینوں نے اسے جس قدر سہل پسند اور تن آسان بنایا وہ اسی قدر بے حد مصروف بھی ہو تا چلا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے، خوب سے خوب تر کی تلاش، انسانی فطرت کا خاصا ہے لیکن اسی خوب سے خوب تر کی تلاش نے انسان کو خود سے غافل کر دیا ہے۔ ہم لوگ اشیائے ضروریات کے عادی ہی نہیں غلام ہو گئے ہیں۔سادگی اور قناعت سے بھی زندگی گزاری جاتی رہی ہے لیکن نت نئی خواہشات نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا ہے۔ سماج میں ابتری پھیل رہی ہے۔ اس حوالے سے اکیسویں صدی کے انسان کی زندگی پرانے دور کی زندگی سے کہیں زیادہ اجیرن ہوچکی ہے۔ سو اوسط عمر بھی پچاس ساٹھ برس رہ گئی ہے۔ بچے اور جوانوں میں بلڈ پریشر، شوگر، دل، جگر اور کئی خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ غور کیجئے۔ ہمارا گزرا کل اچھا تھا یا ہماراآج۔ایسے لگتا ہے کہ انسان دنیا پر چند برسوں کا مہمان ہے۔ غربت کا آسیب، ہمارے بچوں کا بچپن نگل جاتا ہے ، ہوش سنبھالتے ہی، گھر سنبھالنے کی فکر آن گھیرتی ہیں۔ کھیلنے کودنے، ہنسنے ہنسانے، گھومنے پھرنے کے دن، نوجوانی کے دن، جنہیں زندگی کے بہترین دن کہا جاتا ہے، انہی دنوں میں ایسی مشقتیں کرنا پڑتی ہیں کہ خدا کی پناہ الفاظ نہیں ہیں بیان کرنے کیلئے۔ خواب مر جاتے ہیں اور خواہشیں بھی، ہر دن، اگلے دن کی فکر میں کٹ جاتا ہے۔ پھر جوانی میں ہی بڑھاپا آجاتا ہے، محرومیاںجھریاں بن کر چہروں پر نمودار ہونے لگتی ہیں، گہرے سیاہ حلقے، آنکھوں کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں۔حکمرانوں کی بے حسی نے ہمارے لوگوں کو بے حس و حرکت کر رکھا ہے، ان کی خوشی محسوس کرنے کی حس تک مر چکی، فکرِ معاش میں جکڑی، محرومیوں میں لپٹی، بے کیف، بے رنگ اور اکتا دینے والی زندگی۔یہ مقدر بن چکی ہے، دلوں میں کوئی امنگ جاگتی ہے، نہ کوئی آرزو جنم لیتی ہے۔ سب سے بڑا مقصد، سب سے بڑا خواب بس یہی ہے کہ کسی طرح دو وقت کی روٹی پوری ہوتی رہے، اس سے آگے سوچ بڑھتی ہی نہیں ہے۔