قومی کھیل ہاکی کی بحالی

تیسرا سی این ایس آل پاکستان ہاکی ٹورنامنٹ  21سے 28 ستمبر 2021تک عبدالستار ایدھی ہاکی اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا جسے نیشنل بنک آف پاکستان نے جیت کر کامیابیوں کی ہیٹرک مکمل کی۔ فاتح ٹیم نے مد مقابل واپڈا کی ٹیم کو دلچسپ اور سخت مقابلے کے بعد2-1گول  سے شکست دے کر ٹائٹل نام کیا۔جبکہ تیسری پوزیشن کے لئے نیوی نے ماڑی  پٹرولیم کمپنی لمیٹڈ کو 2-1گول سے زیر کیا۔ تیسرا سی این ایس آل پاکستان ہاکی ٹورنامنٹ جیت کر کامیابیوں کی ہیٹرک مکمل کر لی ۔ فاتح ٹیم نے مد مقابل واپڈا کی ٹیم کو دلچسپ اور سخت مقابلے کے بعد2-1گول  سے شکست دے کر ٹائٹل نام کیا۔جبکہ تیسری پوزیشن کے لئے نیوی نے ماڑی  پٹرولیم کمپنی لمیٹڈ کو 2-1گول سے زیر کیا۔ ٹورنامنٹ  کے فائنل اور اختتامی تقریب  کے مہمان خصوصی چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل محمد امجد خان نیازی تھے جنہوںنے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ٹورنامنٹ کے انعقاد سے قومی کھیل میں عوام کی دلچسپی میں اضافہ ہوگا اور ملک میں ہاکی کے کھیل کی تجدید ہوسکے گی۔امیرالبحر نے کہا کہ وہ ہاکی ٹورنامنٹ کے انعقاد پر بہت خوش ہیں اور ٹورنامنٹ کھیلنے اور نمائندگی نہ کر سکنے والے نوجوان کھلاڑیوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔انہوں نے کہا،’’ ہاکی کی ترویج و ترقی کے لئے پاک بحریہ کا بڑا کردار ہے  اور آج نوجوانوں کے جوش و ولولہ بیدار کرنے آیا ہوں تاکہ قومی کھیل کا وقار بحال ہو‘‘  انہوں نے اس امید ظاہر کی کہ قومی اور نجی ادارے بھی قومی کھیل کے فروغ میں بھر پور کردار ادا کریںگے۔
بلا شبہ پاکستان نے مختلف کھیلوں کے حوالے سے دنیا بھر میں بے پناہ شہرت حاصل کی جن میں کرکٹ،اسکوائش،بلیرڈ اور دیگر اسپورٹس شامل ہیں۔اور ان تمام کھیلوں میں کھلاڑیوں نے اپنی انتھک محنت،جوش وولولہ اور جذبہ حب الوطنی کے باعث بہت سے عالمی اعزازات اپنے سینے پر سجائے ہیں۔لیکن ان تمام کھیلوں میں ہاکی کو منفرد مقام حاصل رہا ہے۔کرکٹ اور فٹ بال کی طرح ہاکی بھی یورپ سے پاکستان آیا ہے۔لیکن اس نے پاکستان  میں ایسی مقبولیت حاصل  کی کہ کوئی سکول،کالج اور کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں یہ کھیل نہ کھیلا گیا ہو۔ ایک دور تھا جب دنیا کے ہرکونے میں پاکستان ہاکی ٹیم کا ڈنکا بج رہا تھا۔ ہمارے اس قومی کھیل کو پروقار اور ہردلعزیزسمجھا جاتاتھا۔ پاکستان بھر کے چھوٹے بڑے شہروں حتیٰ کہ قصبوں میں اسکول و کالج اور کلبوں کی سطح پر کھیلے جانیوالے اس کھیل نے خوب پذیرائی حاصل کی۔ پی آئی اے، کسٹمز، واپڈا، ریلوے، آرمڈ فورسز، پولیس و دیگر کئی ایک ادارے اور اس کے علاوہ صوبائی سطح کی ٹیمیں ہمہ وقت کسی نہ کسی شہر کے گراونڈ میں ایک دوسرے سے نبرد آزما نظر آتیں ہیں۔ ملک کے چند اضلاع فیصل آباد، گوجرہ،سیالکوٹ، گوجرانوالہ،ملتان، راولپنڈی، پشاور،حیدرآباد اور کراچی کو ہاکی کے لئے زرخیز زمین سمجھا جاتاہے۔ان علاقوں کے جواں سپوتوں کا کوئی ثانی نہیں۔ ایسے ایسے کھلاڑی ابھر کر سامنے آئے جنہوں نے دنیا بھر میں ملک کے ساتھ ساتھ انفرادی شناخت بھی قائم کی۔ پاکستان کے وسطی و تاریخی شہرسیالکوٹ کی بنی ہوئی ہاکی اسٹک بھی پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں رکھتی تھی۔ زیادہ سے زیادہ 737گرام وزنی اور 90 تا95سنٹی میٹر قد کی یہ ہاکی اسٹک جذبے اور چاہت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہونے والے کاریگروں کے ہاتھ سے تیار کی جاتی تھی۔ 
پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کھیل میں لاتعداد جھنڈے گاڑے ہیں۔  میلبورن اولمپکس 1956ء ، ٹوکیو اولمپکس 1964ء اور میونخ اولمپکس  1972ء میں پاکستان ہاکی ٹیم نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ہمارے مایہ ناز کھلاڑیوں نے حب الوطنی اور یکجہتی کو اولین حیثیت دیتے ہوئے ٹیم ورک کی مدد سے 1960ء کے روم اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت کر ہاکی کھیلنے والے تمام ممالک کو حیرت زدہ کردیا۔اس ٹیم میں شامل کھلاڑی پاکستان کے اصلی ہیروہیں جو ہاکی کی داستانوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہ وہ دور تھا جب ائیرمارشل (ر) نورخان کے کاندھوں پر پاکستان ہاکی فیڈریشن کی صدارت کی ذمہ داری تھی۔نور خان نے جتنا ہاکی کے کھیل کو فروغ دیا شاید ہی اس قدر کوئی اور اس کھیل کی خدمت کر سکاہو۔ اس اولمپکس میں جیتنے والی ٹیم کے چند دیگر روشن ستاروں میں تنویر ڈار، خالد محمود، طارق نیازی، جہانگیر بٹ اور ذاکر حسین کے نام قابل ذکر ہیں جو آج بھی ہاکی کے پرستاروں کی زبان پر عام ہیں۔ 1970ء  سے 1995ء  کے زمانے کو پاکستان ہاکی کے سنہری دور کے طور پر یا دکیا جاتا ہے۔ 1984ء  میں لاس اینجلس اولمپکس میں پاکستان نے ایک بار پھر سونے کا تمغہ حاصل کیا اور اس گرائونڈ میں پاکستان کا  سربلند ہوتا ہوا پرچم اور قومی ترانہ کی دھن بہت سے ذہنوں میں ابھی تک محفوظ ہے۔ ہاکی ورلڈ کپ 1975ء  میں کوالالمپور اور 1990ء لاہور میں تو پاکستان ٹیم نے چاندی کے تمغے پہننے پر اکتفا کر لیا لیکن بارسلونا میں منعقدہ ورلڈ کپ1971ء میں سونے کا تمغہ جیت کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالے رکھا۔1978ء میں بیونس آئرس میں کھیلے گئے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان نے سب کو پچھاڑ دیا۔ اسی کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے 1982ء میں ہندوستان کے شہر ممبئی میں منعقدہ ہاکی ورلڈ کپ میں بھی پاکستان نے اپنے اعزاز کا دفاع کیا اور ورلڈ کپ کے اعزاز کی جانب کسی مخالف ٹیم کو دیکھنے تک نہ دیا۔ 1994ء  میں سڈنی میں کھیلے گئے ہاکی ورلڈ کپ میں بھی پاکستانی ٹیم نے اپنی صلاحیتو ں کا لوہا اسی عزم اور ولولے سے منواتے ہوئے ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔لاہور میں کھیلی جانیوالی 1978ء کی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان نے اپنا سکہ منوایا جبکہ 1980ء  میں کراچی میں کھیلی جانیوالی چیمپیئنز ٹرافی میں بھی پاکستان نے یہ اعزاز کہیں اور نہ جانے دیا۔ 1994ء میں بھی اس ٹرافی کیلئے میدان لاہور میں ہی سجایا گیا جہاں پاکستان نے اپنے ہاں آنے والی تمام دیگر ٹیموں کو وکٹری اسٹینڈ کی پہلی پوزیشن پر کھڑے نہ ہونے دیا۔ایشین ہاکی فیڈریشن کی جانب سے 1982ء میں ایشین ممالک کے مابین ایشیا کپ کے نام سے ایک نئے ٹورنامنٹ کا اجراء کیاگیا۔ اس ٹورنامنٹ کا انعقاد کراچی میں ہوا۔ پہلا ا یشین کپ جیتنے کا سہرا بھی پاکستان کے سر رہا، دوسرا ایشیا کپ 1985ء میں ڈھاکا میں کھیلا گیا۔ اس میں بھی ہماری ٹیم نے اپنے اعزاز کا کامیاب دفاع کیا۔ تیسرا ایشیا کپ 1989ء میں ہندوستان کے شہر نئی دہلی میں کھیلا گیا۔ پاکستان کی ٹیم نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے لگاتار تیسری بار ایشیا کپ جیت کراس ٹورنامنٹ میں کامیابی کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔برادر اور دوست ملک ملائیشیا کے سلطان اذلان شاہ جو خود بھی ہاکی کے بہترین کھلاڑی 
رہے ہیں، نیاس کھیل سے محبت میں 1983ء  سے کوالالمپور میں سلطان اذلان شاہ انٹرنیشنل ہاکی کپ کے نام سے ایک سالانہ ٹورنامنٹ کا آغاز کرایا۔سلطان اذلان شاہ کپ بھی 1998ء  میں پاکستان نے اپنے نام کیا۔ دوسری بار 2000ء میں بھی پاکستان ٹیم نے کسی او رٹیم کو اس پر حق نہیں جمانے دیا۔ تیسری بار 2003ء  میں بھی یہ ٹائٹل جیت لیا جبکہ 7بار پاکستان ہاکی ٹیم نے اس ٹورنامنٹ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ایشین گیمز میں ملائیشیا، ہندوستان، جنوبی کوریا، بنگلہ دیش، عمان، ہانگ کانگ،جاپان اور چین کی ٹیموں سے سامنا رہتا ہے۔1958ء سے جاری اب تک ہونے والی 15ایشین گیمز میں پاکستان نے 8بارطلائی تمغہ جبکہ 3بار چاندی اور 3بار کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ ماضی کے سنہری لمحات اور لا تعداد اعزازا ت کا ذکر کرنے کے بعد آج جب ہم اپنے اس خوبصورت اسٹک ورک اور ٹیم ورک کے کھیل کی جانب دیکھتے ہیں تو آنسو ضبط کرنے اور آہیں 
روکنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ہمارے گراونڈ جہاں کمنٹیٹرز کی انگلش اور اردومیں رننگ کمنٹری نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ تماشائیوں کے بھی خون گرما دیا کرتی تھی جس سے اس کھیل میں جوش و ولولہ دگنا ہو جا تا تھا، اس کھیل کو دوبارہ زندہ کرنے کیلئے آج ہمیں اسی جذبے اور حب الوطنی کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ 
پاک بحریہ ملک کی سمندری سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کھیلوں کے فروغ کے لیے کوشاں ہے اور ہاکی کے میدانوں میں پھر سے پاکستان کا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لئے  اعلی سطح کے اقدامات کر رہی ہے  جن میں مستقل  بنیادوں پر چیف آف دی نیول سٹاف ہاکی ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔پا ک بحریہ  مختلف اداروں کے کھلاڑیوں کو چیمپیئنز ٹرافی میں کھیل کی دعوت دیتی ہے،جس کی وجہ سے ہر ادارہ بہترین کھلاڑی فراہم کرنے میں کوشاں ہوجاتاہے، اس کے نتیجے میں کھلاڑیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔پاک بحریہ نے عالمی سطح کا ایسٹروٹرف سے مزین گراونڈکی تعمیر کا بیٹرا اٹھایا تاکہ انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو پاکستان  کے ہاکی کے میدانوں کی طرف متوجہ کیا جائے اور ان کی  آمد کی راہ ہموار ہوسکے۔ 
 تیسرے سی این ایس ٹورنا منٹ کے اختتام  پر  ایڈمرل محمد امجد خان نیازی نے انعامات تقسیم کئے۔نیشنل بینک آف پاکستان کو چیمپئن شپ جیتنے پر 17 لاکھ روپے کا نقد انعام ملا۔ واپڈا اورپاک بحریہ نے بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرکے 1.3 ملین اور 1 ملین روپے کی انعامی رقم حاصل کی۔نیشنل بینک آف پاکستان ٹیم کے دلبرنے مین آف دی ٹورنامنٹ کا ااعزاز حاصل کیا۔پاک بحریہ کی ٹیم کے محمد اقبال اورنیشنل بینک آف پاکستان کی ٹیم کے دلبر کو بہترین گول کیپر اور ٹورنامنٹ کا بہترین اسکورر قرار دیا گیا۔ایونٹ میں 8 ٹاپ قومی ٹیموں نے ٹورنامنٹ کاٹائٹل حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کیا جن میں واپڈا ، ماڑی پٹرولیم کمپنی لمیٹڈ ،نیشنل بینک ، نیوی ، ائیر فورس ، آرمی ، پنجاب اور پورٹ قاسم اتھارٹی کی ٹیمیں شامل ہیں۔ 21 تا 28 ستمبر 2021 تک منعقد ہونے والاسات روزہ ایونٹ 2016 کے بعد سے قومی سطح پر4.2 ملین کی انعامی رقم کے ساتھ بڑاٹورنامنٹ بن چکا ہے۔ جس میں ملک کے 128 سے زائد پرجوش کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ تقریب میں پی ایچ ایف کے صدر برگیڈئیر (ر) خالد سجاد کھوکھر، سیکریٹری آصف باجوہ، اولمپئین سمیع اللہ، اولمپئین حنیف محمد ، اولمپئین اصلاح دین ، پی ایچ ایف کے کوآرڈینیٹر حیدر حسین ،گلفراز، ملٹری معززین اور سابقہ اولمپیئنز کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن