پیشانی ہے تابندہ مری خاکِ وطن سے
یہ خاک تو بہتر ہے مجھے کْوئے عدن سے
مسجد ہے کہ یہ فتنہ گہہِ شیخِ فتن ہے
بے زار ہیں سب اہلِ خرد اہلِ فتن سے
مجھ کو تو نہیں مسندِ شاہی سے غرض کْچھ
اک رشتہ جاں ہے تو فقط دار و رسن سے
یہ فصلِ گْل و لالہ تو خونریز بہت ہے
شْعلے سے بھڑک اْٹھّے ہیں کیوں نخلِ چمن سے
یا رب یہ قیامت کا سماں دیکھوں میں کیسے
اک شعلہ ہے لپٹا ہوا ہر بندِ کفن سے
شعلوں نے تپش شعلہ رخسار سے لی ہے
غْنچوں نے ادا سیکھی ہے اْس غْنچہ دہن سے
اب جعفری خاکسترِ جاں میں ہیں شرارے
شعروں میں جو آتش ہے وہ ہے سوزِ سخن سے
(ڈاکٹر مقصود جعفری )