"کپاس کی اہمیت"

کاٹن کی اہمیت کوچار غریب افریقی ممالک نے 2019میں سمجھا اور اقوام متحدہ میں آواز بلند کر کے سات اکتوبر کو ورلڈ کاٹن ڈے قرار دلوایا اس کے پس پردہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کاٹن ہی وہ جنس ہے جو کاشتکار کو غربت کی لکیر کے نیچے سے نکال کر اوپر لاتی ہے کاٹن کی کاشت سے افریقہ میں ایک کروڑ سے زائد کاشتکار غربت کی دلدل سے نکل کر مڈل کلاس میں شامل ہوئے ہیں کیونکہ کاٹن کی قیمت بھی اچھی ملتی ہے اور یہ فوری ایکسپورٹ ہو جاتی ہے انڈیا اور چین میں بھی کاٹن کاشت کرنے والوں نے غربت کو شکست دی ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کاٹن غریب کسان کو امیر بنا دیتی ہے  پاکستان میں کاٹن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ گذشتہ روز ہی ٹیکسٹائل سیکٹر کی نمائندہ تنظیم اپٹما نے بتایا ہے کہ رواں مالی سال پاکستان کی GDPگروتھ 5فیصد سے بڑھ سکتی ہے اور اس کی وجہ پاکستان میں کاٹن کی پیداوار ہے یکم اکتوبر 2021تک کے کاٹن پیداوار کے جو اعدادوشمار PCGAنے جاری کئے ہیں اس کے مطابق پاکستان میں یکم اکتوبر تک3.8ملین گانٹھ پیدا ہوئی ہے جو گذشتہ سال کی نسبت لگ بھگ ڈبل ہے کہ وہ پاکستان جو صرف چار سال قبل دنیا میں کاٹن کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر تھا آج پانچویں نمبر پر ہے اور کاٹن پیدا کرنے کے باوجود پاکستان دنیا میں کاٹن امپورٹ کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے پہلے کاٹن امپورٹ میں پاکستان کا آٹھواں بڑا ملک ہوتا تھا اس طرح ہم کاٹن کے حوالے سے تنزلی کا شکار ہیں پیداوار میں ایک درجے ہم نیچے چلے گئے ہیں اور دنیا سے کاٹن خرید کر اپنی ضرورت پوری کرنے میں ہم پانچ درجے اوپر آگئے ہیں یہی وجہ ہے کہ پٹرول کے بعد ہمارا بڑا امپورٹ بل کاٹن کا ہی ہے جو تشویش ناک بات ہے پاکستا ن میں جس تیزی سے ٹیکسٹائل سیکٹر نے گروتھ کی ہے اسی تیزی سے ہم اگر کاٹن پیداوار میں گروتھ کرتے تو آج پاکستان کی سالانہ ایکسپورٹ 50ارب ڈالرز کو چھو رہی ہوتی لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ جس طرح حکومت نے ایک ٹیکسٹائل پالیسی دی ہے اسی طرح ایک کاٹن پالیسی بھی دینی چاہیے  دوسرا اس کو سیڈز ،   زرعی ادویات اور کھادیں غیر معیاری فراہم کی جاتی ہیں رواں سیزن میں جب کاٹن کی پیداواربہتر ہے یہ مزید بہتر ہو جاتی اگر سفید مکھی 
اور گلابی سنڈی فصل تباہ نہ کرتے اس کے باوجود پاکستان میں کاٹن کی فصل بہتر ہونے کا کریڈٹکاشتکار کو دیا جانا چاہیے جس نے ایک جذبے کے ساتھ پاکستان میں کاٹن کی کاشت کی اور تمام تر مشکلات کے باوجود پیداوار میں اضافہ کیا  یہی وجہ ہے کہ زرعی سائنسدانوں کی نئی کھیپ سامنے ہی نہیں آرہی جب نوجوانوں کو معلوم ہو گا کہ کاٹن ریسرچ کا مستقبل ہی نہیں ہے وہ اس شعبہ میں قدم ہی نہیں رکھیں گے اس وقت بھی کاٹن ریسرچ سے وہ لوگ وابستہ ہیں جو پیٹ پر پتھر باند ھ کر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں بہت زیادہ ضرورت ہے کہ کاٹن کاشتکار کی تربیت کا انتظام کیا جائے تاکہ ہماری فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہو پاکستا ن میں کاٹن پیداوار کے علاقوں میں شوگر ملیں لگانے سے ملکی معیشت جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ایک ارب ڈالر سالانہ کی چینی پیدا کر کے پاکستان کی 20ارب ڈالر سالانہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ سے ہاتھ دھونا پڑاہے اگر پاکستان میں گنا کی جگہ کاٹن کاشت ہو تو اس سے پاکستان کی GDPگروتھ ڈبل فگر کو چھو سکتی ہے جس سے ملک خوشحال ہو سکتا ہے آج ضرورت ہے کہ مہم چلائی جائے کہ گنا نہیں کپاس اگانی ہے ملک کی ایکسپورٹ بڑھانی ہے۔

ای پیپر دی نیشن