کالم:لفظوں کا پیرہن

Oct 10, 2023

غلام شبیر عاصم

تحریر:غلام شبیر عاصم 
دینِ اسلام کا قتلِ عام
ہم پاکستانی بحیثیت مسلمان یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ہمارا مذہب اسلام سچا،مکمل ضابطہ حیات اور آفاقی دین ہے،اس کی حقانیت اور خوبصورتی بے مثل اور لاریب ہے۔بلاشبہ یہ ہمارا دعویٰ سچ ہے۔لیکن اس دعوے کو اغیار کے سامنے کمزور اور مشکوک بنانے میں بھی ہماری ہی شب و روز کی محنتِ شاقہ کا عمل دخل ہے۔فقط دنیاوی اور عارضی مفادات کے لئے اس دین کی تباہی و بربادی ہمارے ہی ہاتھوں ہو رہی ہے اور ہمیں محسوس نہیں ہورہی۔فطرتِ انسانی کا یہ خاصہ ہے کہ انسان بہتر سے بہترین اور خوبصورت سے خوبصورت ترین کی طرف رغبت رکھتا ہے۔اگر اسلام ہمارے اپنے ہی مطابق سچا ستھرا،مکمل ضابطہ حیات،بلندیوں اور ماورائیوں کا پیکر ہے تو پھر ہم اس دین کے طرزِ معاشرت کو کیوں نہیں اپناتے۔ہم اس خوبصورت،مکمل، آفاقی اور امن و آشتی کے پیکر دین کو چھوڑ کر غیر اسلامی اور مغربی تہذیب ہی کے گرویدہ کیوں ہوکر رہ گئے ہیں۔دوسری بات یہ کہ ہم مشاہدات اور تجربات سے گزرنے کے بعد ان ممالک کی کچھ اس طرح سے بھی قصیدہ گوئی کرتے ہیں کہ ان ممالک کا انداز زندگی اور طرزِ معاشرت قابل صد ستائش و تحسین ہے،اسے دیکھ کر رشک آتا ہے،مختصر یہ کہ ہم ان کی تعریفوں کے پ±ل باندھ دیتے ہیں۔اور دوسری طرف اللہ اور بندے کو ملانے والے اپنی تہذیب کے سارے پ±ل ان اغیار کی تعریفوں کے سیلاب میں بہادیتے ہیں،گویا ہم اللہ پاک اور اپنے درمیان موجود خلیج میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ہم ان ممالک کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اصل اسلام ہے ہی ان معاشروں کے اندر،ہم تو بس نام کے مسلمان ہیں۔یہ سب کہنے کے باوجود بھی ان ممالک کے اصول و ضوابط سے ہم کچھ نہیں سیکھ سکے یا جان بوجھ کر ہم اپنے آپ پر ان ممالک کی مثبت اقدار کو لاگو نہیں کررہے۔ہمارے ہی اسلامی کلچر سے روز مرہ کے اصول وضوابط لے کر وہ قومیں ترقی اور اعلیٰ اخلاقیات کی بلندیوں پر پہنچ گئی ہیں۔ان قوموں میں رائج ہوچکے ہوئے ہمارے اپنے ہی دین کے معاشرتی قوانین کو ہم ان سے نہ سیکھ سکے۔ہم نے ان قوموں سے اگر کچھ لیا ہے تو صرف بے پردگی،اسلامی تہذیب کے منافی رواج اپنے اوپر نافذ کر لئے ہیں،اور ہمارا یہ نقل شدہ سارا طرزِ حیات ہمارے نذدیک روشن خیالی،قوم قبیلہ اور حلقہ یاراں میں انفرادیت کا مقام رکھتا ہے اور ہمارے اندر یہ احساسِ تکبر پیدا کرتا ہے کہ بھئی ہم تو کوئی انوکھی اور منفرد سی مخلوق ہیں۔یہی کلچر ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اندر بڑی تیزی سے نشوونما پا رہا ہے۔ہم نے اس تکبر و تکدر کو اس قدر انہماک اور پختگی سے قبول کر لیا ہے کہ اسلامی رسم و رواج اس کے نیچے دفن ہوکے رہ گئے ہیں۔ہم نے عالمِ کفر و شرک پر ممکنہ دینِ محمدی کے غلبہ کو"ملبہ"میں بدل کے رکھ دیا ہے۔روز محشر وارثِ دین اسلام حضرت محمد? عربی نے اگر ہم سے پوچھ لیا کہ جس دین کی ترقی و ترویج اور بقا کی خاطر سنگ باری،تیر و سناں کو برداشت کرکے خون سے آبیاری کی گئی،اس کی تباہی و بربادی کیونکر ہوئی تو ہمارے پاس کیا جواب ہوگا۔ہم غیر اسلامی قوموں کے طرز زندگی،ان کے ہاں قانون کی بالا دستی،ایمانداری، سچ گوئی،وقت کی پابندی اور صلہ رحمی کی صرف تعریفیں کرتے ہیں۔ان اوصاف کو اپنے اندر پیدا کیوں نہیں کرتے۔ہم نے ان معاشروں سے صرف ایسے عادات و خصائل کو اپنایا ہے جو صرف ہماری جنسی خواہشات اور حسِ غرور و تکبر کے لئے تسکین کا سبب بن سکے۔دکھ ہے کہ ہم کس قدر منفیت میں غرق ہوچکے ہیں اور اس غلط سلط طرزِ معاشرت کی پیروی کرکے خاکم بدہن ہم دینِ اسلام کا قتلِ عام کر رہے ہیں۔

مزیدخبریں