موسمیاتی تبدیلیوں کے فصلوں کی پیداوار پر اثرات

 فرحان انجم ملغانی)

موسمی تغیرات کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں مجموعی طور پر زرعی ترقی کا عمل متاثر ہورہا ہے کیونکہ کاشتکاروں کو اپنی کاشتہ فصلوں کو سخت گرمی یا سردی کے علاوہ بارشوں کے نقصانات سے بچانے کے لئے اضافی اخراجات کرنے پڑ رہے ہیں۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں موسمی شدت اور معیاری خوراک کی فراہمی میں کمی کے باعث انسانوں کے معاشرتی رویوں (Attitudes) میں منفی تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ جانوروں اور انسانوں کے علاوہ فصلوں میں بھی نئی بیماریاں ظاہر ہونے لگی ہیں۔ فصلوں کے ضرر رساں کیڑوں اور بیماریوں کی نوعیت (Nature) اور شدت (Intensity) میں نمایاں فرق پیدا ہوچکا ہے آنے والے سالوں میں ترقی پذیر کو خوفناک قسم کی غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔آنے والے سالوں میں آبادی کی ضرورت کے مطابق غذائی اجناس کی پیداوار میں اضافہ ایک بڑا چیلنج ہے،کیونکہ مختلف فصلوں کے وقت اور طریقہ کاشت کے علاوہ آبپاشی کے متعلق سفارشات بدل چکی ہیں۔ ترقی پسند کاشتکار موسمی تغیرات و تبدیلیوں کے باعث زرعی سائنسدانوں کی متعارف کردہ جدید طریقے اختیار کر رہے ہیں مگر چھوٹے کاشتکارنئی سفارشات پر عمل پیرا نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے ان کی فی ایکڑ پیداوار ترقی پسند کاشتکاروں کی نسبت کم ہے۔
 حالیہ سالوں میں وقوع پذیر ہونے والے بعض عوامل کلائیمیٹ چینج کی واضح دلیل ہیں۔ دنیا کے گلیشئرپگھلنے کی وجہ سے ویسٹ انڈیز، انڈونیشیا اور مالدیپ کے سینکڑوں جزیرے سمندر میں غرق ہوچکے ہیں اور یہ عمل بڑی سرعت کے ساتھ جاری ہے۔ نیدر لینڈ کی حفاظت کے لئے سمندر کے آگے پشتے باندھنے کے مزید نئے منصوبوں پر عمل کیا جارہا ہے۔ عالمی سطح پر موسمی تبدیلیوں کے دیگر بے شمارمظاہر بھی موجود ہیں۔ یہ بات مصدقہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گرمی کے دورانیہ میں اضافہ ہو رہا ہے، آبی ذخائر کی کمی واقع ہورہی ہے، بارشی نظام تبدیل ہو رہا ہے، میتھین گیس  ( gas methane ) میں اضافہ ہو رہا ہے، ضرر رساں کیڑوں اور بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے، بڑی فصلوں کی پیداوار میں کمی واقع ہورہی ہے۔ ٹریفک اور صنعتی آلودگی کی وجہ سے اوزون تہہ (Ozone layer) پتلی ہورہی ہے۔ سورج کی انفراریڈ (گرم) شعاعیں زیادہ زمین پر آنے لگی ہیں اس لئے شدید گرمی کے نئے ریکارڈ قائم ہورہے ہیں۔ 
پنجاب میں مئی سے جولائی کے درمیان درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ سبزیوں اور دالوں کے علاوہ مکئی اور کماد جیسی سخت جان فصلیں بھی جھلس جاتی ہیں۔ فصلوں کی کاشت سے لے کر برداشت تک بیشتر عوامل میں متوازن حرارت کا دخل ہے جبکہ شدید گرمی سے فصلوں کے پتے جلنے سے پیداوار بری طرح متاثرہوتی ہے،پودے دھوپ زدگی (Sunburn) کا شکار ہوجاتے ہیں۔بعض اوقات اچانک شدید بارشیں (Cloud burst) دیکھنے میں آتی ہیں۔ 1992 میں دریائے جہلم میں تاریخ کا بد ترین سیلاب آیا تھا۔ جولائی 1996 میں لاہور میں 24 گھنٹوں میں 500 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔ 2001 میں اسلام آباد میں 10 گھنٹوں میں 621 ملی میٹر بارش نے غیر معمولی سیلابی صورتحال پیدا کردی تھی۔ بلوچستان میں تو بارش ہمیشہ سے کم ہی ہوتی رہی ہے لیکن 2005 میں بلوچستان میں شدید بارشوں سے شدید سیلاب کے باعث بہت زیادہ جانی و مالی نقصان دیکھنے میں آیا۔ 1998 میں سیاچین گلیشیر 66 فٹ تک پگھل گئے اور سیلابی صورت حال کے باعث ان علاقوں میں موجود انڈین فوج تیزی سے پیچھے ہٹ گئی تھی۔ درجہ حرارت بڑھنے سے سیاچین گلیشیر پگھلنے کی رفتار تیزن تر ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں گذشتہ چند سالوں میں پاکستان میں شدید سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2001 تا 2007 میں مختلف فصلوں کی پیداواری رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث دانے سکڑ گئے اورربیع کی فصلوں کی ابتدائی بڑھوتری اچھی ہونے کے باوجود پیداوار میں کمی ہوئی تھی۔ سال 2008 کے شروع میں حیرت انگیز حد تک شدید سردی پڑنے کے باعث پنجاب کے میدانی علاقوں میں بھی 3 ہفتوں تک مسلسل کورا پڑتا رہا جس سے نہ صرف آم اور دیگر سبزیاں بری طرح متاثر ہونے کے علاوہ گندم اور کماد جیسی سخت جان فصلیں بھی متاثر ہوئیں۔ 1975 سے لے کر سال 2000 تک کسی بھی ایک ہفتے کا اوسط درجہ حرارت 45 سینٹی گریڈ سے نہیں بڑھا تھا لیکن سال 2016 کے دوران مئی اور جون کے مہینوں میں درجہ حرارت 47 سینٹی گریڈ سے بھی بڑھ گیا ہے۔ موسمی تبدیلیوں میں شدت کے باعث نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر مختلف فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کی زرعی پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔ زرعی اجناس بالخصوص دالوں، سبزیوں اور خشک میوہ جات کی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر اکیسویں صدی کے اواخر آئندہ عشروں کے دوران پاکستان میں کم بارشوں والے نظام کی پیش گوئی کی گئی ہے اور انٹرنیشنل پینل آن کلائمیٹ چینج کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ان پہلے دس ممالک میں ہوگا جو بارشی قلت کے باعث بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں۔ مستقبل میں زرعی سائنسدانوں کو بدلتے موسمی حالات کو پیش نظر رکھ کر جامع حکمت عملی کے تحت تمام تر تحقیقی سرگرمیوں کو تیز کرنا از حد ضروری ہے۔ موسمی تغیرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اجتماعی قومی معاملات کو از سر نوترتیب دینے اور اجتماعی قومی سوچ میں تبدیلی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ضلع کی سطح پر زرعی سفارشات مرتب کرنے کے لئے اور چھوٹے کاشتکاروں کی دہلیز تک پہنچانے کے لئے قومی جذبے کے ساتھ منظم تحقیقی اور اشاعتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں امور کاشتکاری کی سفارشات میں نمایاں تبدیلی آچکی ہے۔ زرعی تحقیق و توسیع کے نظام پر نظر ثانی کرتے ہوئے متغیر زرعی سفارشات خصوصاً وقت کاشت، فصلوں کی آبپاشی اور فصلی ترتیب کو ضلع کی سطح پراز سر نومتعین کیا جارہا ہے۔ ضلع کی سطح پر موسمی پیشین گوئی سے باخبر رہنے کے لئے موبائل فون اور انٹرنیٹ بہترین ذرائع ہیں۔ قومی سطح پرجدید سیٹلائٹ ٹیکنالوجی سے استفادہ کر کے موسمی پیش گوئی کا نظام بہتر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بروقت موسمی پیشین گوئی کے ذریعے کاشت کے دوران بدلتے موسموں کے منفی اثرات سے کافی حد تک بچا جاسکتا ہے۔ اسی طرح زرعی لوازمات خصوصاً کھادوں اور بارشی زمینی پانی کے دانشمندانہ استعمال اورفی ایکڑ پیداواری اخراجات میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن