اپنی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کسی بھی ریاست کا بنیادی فریضہ ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد دو طرح کے ہوسکتے ہیں ، اول وہ جو اس ملک میں داخل ہی غیر قانونی طور پر یعنی ویزہ یا اجازت نامہ کے بغیر ہوئے ہوں ، دوم وہ جو داخل تو قانونی طور پر ہوئے ہوں لیکن اپنے قیام کی عارضی مدت ختم ہونے کے بعد غیر قانونی طور پر میزبان ملک میں ر±ک گئے ہوں۔ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ملک بدر کرنا کوئی نیا یا ظالمانہ تصور نہیں ہے دنیا کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں مقامی افراد، کلچر اور وسائل کے تحفظ کے لئے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جاتا رہا اور تو اور دور جدید میں امریکہ جیسے بڑے ، ترقی یافتہ اور انسانی حقوق کے علمبردار مانے جانے والے ملک میں بھی غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے انخلا کے لئے قومی سطح پر پالیسی سازی کی کوششیں ہو رہی ہیں حالانکہ ایک حالیہ سروے کے مطابق امریکہ میں مقیم غیر قانونی غیر ملکی وہاں کی معیشت کو سہارا دینے اور سستی لیبر مہیا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ترقی پذیر ممالک کے لئے غیر قانونی پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت کرنا از حد مشکل ہوتا ہے بالخصوص اس وقت جب یہ پناہ گزین قانون کا احترام کرنے والے، تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد پر مشتمل نہ ہوں بلکہ جرائم میں اضافے ، آبادی میں اضافے ، معیشت پر بوجھ اور سیاسی افراتفری کا باعث بن رہے ہوں۔
افغانستان پر روسی جارحیت کے وقت پاکستان سمیت چند دیگر ممالک نے اپنی سرحدیں افغان عوام کے لئے کھول دی تھیں۔ اس عمل کے پیچھے سراسر بھائی چارے، نیکی اور مدد کے جذبات کارفرما تھے۔ پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشت کے لئے یہ بوجھ گنجائش و صلاحیت سے زیادہ تھا لیکن اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح اس قربانی کو جاری رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی گئی۔ پاکستان کو ان قربانیوں کا یہ صلہ ملا کہ الٹا پاکستان پر الزامات لگائے گئے کہ یہ افغانستان میں در اندازی کر رہا ہے ، یہ افغانوں کی مدد نہیں کر رہا، یہ پاک افغان سرحد پر تجارت میں رکاوٹ ڈال رہا ہے جبکہ دوسری طرف حقائق یہ تھے کہ افغان پناہ گزینوں کی وجہ سے ملک کا ثقافتی، معاشی، انتظامی، قانونی اور سیاسی امن و سکون تہہ و بالا ہو رہا تھا۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ افغان پناہ گزینوں کی آمد سے پہلے پاکستان میں عام آدمی کو کلاشنکوف اور ہیروئین کا نام تک معلوم نہ تھا لیکن لیکن جیسے ہی افغانستان سے پناہ گزینوں کا ایک سیلاب پاکستان میں داخل ہوا یہاں منشیات فروشی اور اسلحہ کی نمائش کے کلچر کو ایسا فروغ ملا کہ گلی گلی کلاشنکوف اور کوچے کوچے میں نوجوان نشے کی لت میں گرفتار نظر آنے لگے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پناہ گزینوں کی اکثریت پاکستان میں کالے دھن، سمگلنگ، سود خوری، اغوا برائے تاوان، قتل و غارت گری، منشیات فروشی، جسم فروشی، اسلحہ فروشی اور ایسے ہی دیگر کاموں میں ملوث پائی گئی دوسری طرف دہشت گردی کی کاروائیوں اور دہشت گردوں کی سہولت کاری کی کڑیاں بھی افغان پناہ گزینوں کے کیمپوں اور ایسے بچوں سے جا ملنے لگیں جو کسی نہ کسی وجہ سے دہشت گردوں کے آلہ کار بن کر استعمال ہوتے رہے
ہیں۔خیال تھا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد حالات خود بخود معمول پر آنے لگیں گے اور چونکہ ماضی بعید اور ماضی قریب میں کئی بار افغان پناہ گزینوں بالخصوص غیر قانونی طور پر مقیم باشندوں کو وطن واپس جانے کی اسکیمیں آفر کی جا چکی ہیں اس لئے افغانستان میں امن قائم ہونے کے بعد انخلا کا یہ سلسلہ رضا کارانہ طور پر شروع ہو جائے گا کیونکہ ایران ، ترکیہ اور جرمنی جیسے ممالک سے بھی لاکھوں افغان پناہ گزین حالیہ برسوں میں وطن واپس پہنچ چکے ہیں لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حالات نے بالکل غیر متوقع طور پر ایک نئی کروٹ لی اور افغان پناہ گزینوں نے کھلم کھلا غیر قانونی اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں حصہ لینا اور ایسے بیانیوں کے فروغ کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔اس بات کے ثبوت میں ایک طرف تو9 مئی کے واقعات کی تفصیلات کو پیش کیا جا سکتا ہے جس کے دوران بہت سے اسلحہ بردار افغان باشندے توڑ پھوڑ کرتے ، اداروں پر حملہ کرتے اور ہنگامہ آرائی کرتے نظر آئے اور دوسری طرف پورے ملک نہیں بلکہ فقط دالحکومت اسلام آباد کے صرف ایک برس یعنی سال 2022 عیسوی کے کچھ اعداد و شمار پر نظر ڈالی جا سکتی ہے جن کے مطابق صرف دارالحکومت میں اس برس177 قتل کے کیس،8 زنا بالجبر، 35ڈکیتی کی وارداتیں ، 3058 لوٹ مار کے واقعات،2522 چوریاں، 375 زخمی کرنے کی وارداتیں، 73 کار چوری کے وقوعے، 3279 موٹر سائیکل چوری کی وارداتیں وقوع پذیر ہوئیں۔یہی نہیں بلکہ قومی اداروں کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سکیورٹی فورسز پر حملوں اور ڑوب، ہنگو و مستونگ میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں میں بھی افغان باشندوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔صورت حال کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ اس برس جنوری سے لے کر آج تک ہونے والے 22 خود کش حملوں میں سے حملوں میں 12 افغان پناہ گزینوں کے ملوث ہونے کے شواہد مل چکے ہیں۔
یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر اتنا سب کچھ ہو رہا تھا اور اس ساری صورت حال کا علم بھی تھا تو حکومت پاکستان نے ماضی میں ایسے اقدامات کیوں نہ کیئے جن سے اس سب کا ازالہ ممکن ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو افغانستان میں امن و امان کی صورت حال ایسی نہ تھی کہ افغان بھائیوں کو وطن واپس بھیجا جا سکتا اور دوسرے پاکستان کی داخلی سیاسی صورت حال ایسی رہی کہ عالمی دباو کے پیش نظر اس سلسلے میں نہ کوئی جامع حکمت عملی ترتیب نہ دی جا سکی اور نہ کوئی اقدام اٹھایا جا سکا۔اب جبکہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے اور دوسری طرف پاکستان داخلی حالات، افغانیوں کی مدد، علاقائی کشمکش اور عالمی بدلاو? کی وجہ سے اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے تو چند اہم امور پر تلخ فیصلوں کا کیا جانا ضروری تھا۔انہی حالات و واقعات اور حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے حالیہ اپیکس کمیٹی کی میٹنگ میں کچھ بڑے اور اہم ترین فیصلے کیئے ہیں جن میں غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی، غیر قانونی معاشی سرگرمیوں کے خلاف آپریشن کو جاری رکھنے کا عزم باقی قومی امور پر اقدامات شامل ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہئیے کہ قومی مفاد بلکہ سلامتی پرمبنی اور اس طرح کے متفقہ فیصلوں کو جیسے عوام کی حمایت حاصل ہوئی ہے ویسے ہی تمام دیگر عناصر اور حلقے جو اس ملک سے ذرا سی بھی دلچسپی اور ہمدردی رکھے ہیں وہ بھی ان فیصلوں کی حمایت و تائید کرتےلیکن کچھ حلقوں کی جانب سے دانستہ طور پر اس اہم مسئلے پر ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کے حقائق کے بالکل خلاف ہیں –
مذکورہ حلقوں کی جانب سے کی جانی والی ابہام پیدا کرنے کی کوششیں ا±س وقت اور بھی مضحکہ خیز لگنے لگتی ہیں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس مہم میں بنیادی باتوں اور واشگاف حقائق کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا۔
مثال کے طور پر یہ بات ہر طرح سے بالکل واضح ہے کہ یہ اقدام فقط غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف اٹھایا گیا ہے نہ کہ تمام پناہ گزینوں یا پاکستانی ویزا لے کر آنے والوں یا پاکستان کے راستے کسی اور ملک جانے والے افغان باشندوں کے خلاف لیکن ابہام پیدا کرنے والی قوتیں بار بار اس بات کو ہی دہرا رہی ہیں کہ تمام افغان پناہ گزینوں کے خلاف بلا تفریق کاروائی کی جا رہی ہے جو کہ غلط ہے۔
دوسرا نقطہ یہ ہے کہ یہ قدم صرف افغان باشندوں کے خلاف نہیں بلکہ غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکی باشندوں کے خلاف ہے لیکن ایک بار ابہام پیدا کرنے والے عناصر، ڈھاک کے تین پات کے مصداق، یہی رٹ لگاتے جا رہے ہیں کہ یہ فیصلہ افغان باشندوں کے خلاف ہے۔ایسے عناصر کی طرف سے تیسرا واویلا یہ ہے کہ انخلا کے عمل کے لئے مناسب وقت نہیں دیا جا رہا اور فقط ایک ماہ کے نوٹس پر اتنے بڑے عمل کی تکمیل کا حکم دیا رہا ہے لیکن یہ حلقے یہ نہیں بتاتے کہ جب یہ اسکیم آفر کی گئی ا±س وقت اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا گیا اور ماضی میں جب بار بار اس سلسلے میں خبر دار کیا گیا تو کسی کے کان پر جوں کیوں نہیں رینگی۔پراپیگنڈہ کرنے والے عناصر ایک اور دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ افغان پناہ گزینوں کے انخلا کا مسئلہ دراصل پاکستان میں انتخابات سے توجہ ہٹانے کے لئے اٹھایا گیا ہے ایسی مضحکہ خیز بات کا کیا جواب دیا جائے کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی طرف سے نہ صرف انتخابات کے انعقاد کے بارے لائحہ عمل پیش کیا جا چکا ہے بلکہ تمام سیاسی جماعتیں بھی جوش و خروش سے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ابہام پیدہ کرنے کی ان کاوشوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرنے والی ان قوتوں کا مفاد پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں اور ان کے کاروبار سے وابستہ ہے جس میں کالے دھن کا دھندا، سودی کاروبار، کار چوری کا کاروبار، اسلحہ فروشی کا کاروبار اور منشیات فروشی سر فہرست ہیں۔
منفی پراپیگنڈہ اور ابہام کی کوششیں تو ہمیشہ رہی ہیں لیکن اداروں اور سرکردگان کی طرف سے ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکی شہریتوں کے خلاف بلا تفریق قدم اٹھا کر اورانخلا کے اس عمل کو جتنا جتنا ہو سکے اتنا شفاف بنا کر وقت کے ساتھ ساتھ تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کر دیا جائے کیونکہ جب عوام اداروں کے ساتھ ہوتے ہیں تو پھر قومی نوعیت کے فیصلوں کو بھر پور عوامی حمایت و تائید حاصل رہتی ہے اور ابہام پیدا کرنے والوں کے منہ خود بخود بند ہو جاتے ہیں۔