بارگاہِ ایزدی میں مردود و ملعون قرار پائے یہودیوں کے یومِ سبط کو پھیکا کرتے ہوئے فلسطین کی آزادی کے متوالے حماس کے لشکر نے حیران کن طریقے سے اس مردود قوم کو اپنے نشانے پر رکھا اور اسرائیل کے زیرقبضہ اپنے علاقے کی جانب یکایک پانچ ہزار میزائل فائر کئے اور ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی فوجی افسروں سمیت بیسیوں یہودیوں کو یرغمال بنا کر اسرائیل کیخلاف فلسطین کی آزادی تک جاری رکھی جانیوالی جنگ کا باقاعدہ اعلان کیا تو اس پر سب سے پہلا مذمتی بیان بھارت کے ہندو انتہاءپسند وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے آیا۔ یہ بیان انہوں نے اپنے فیس بک اکاﺅنٹ پر پوسٹ کیا جس میں انہوں نے اسرائیل پر حملے کو حماس کی ”سفاکی“ سے تعبیر کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ ہمدردی و یکجہتی کا اظہار کیا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔ اسی دوران امریکی صدر جوبائیڈن کا اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا بیان بھی آگیا۔ مغرب بشمول یورپ کی قیادتوں پر پہلے تو سکتے کی کیفیت طاری نظر آئی‘ پھر یکے بعد دیگرے انکی زبانوں سے فلسطینیوں اور انکی نمائندہ تنظیم حماس کیخلاف ہذیان نکلنا شروع ہو گیا۔ مسلم دنیا کی جانب سے حماس کی حمایت میں فوری اور پہلا ردعمل ایران کے صدر ابراہیم ریئسی کی جانب سے منظرعام پر آیا جنہوں نے اسرائیل پر اسکے بھرپور حملے کو غزہ میں اسرائیلی فوجوں کی جانب سے سالہا سال سے فلسطینیوں کیخلاف جاری کارروائیوں اور انکے قتل عام کیخلاف جوابی کارروائی سے تعبیر کیا اور اس جنگ میں فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔ اگلے روز انہوں نے حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے ان الفاظ کے ساتھ ان کا حوصلہ بڑھایا کہ ہم جلد ایک ساتھ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھیں گے۔
حماس کی اس فاتحانہ کارروائی پر پہلے روز ملحد دنیا پر سکتہ طاری تھا تو مسلم دنیا کی اکثریت بھی مٹی کے مادھو بنی نظر آرہی تھی حالانکہ مسلم دنیا حماس کی اس کامرانی پر جشن منانے کے ساتھ ساتھ چاہتی تو یکسو ہو کر حماس کے ساتھ مل کر اسرائیل پر چڑھائی کرتی اور اس ناجائز ریاست کا صفحہ ہستی سے نام و نشان مٹا دیتی اور تین صدیاں قبل سلطنت برطانیہ کی جانب سے اتحاد امہ میں نقب لگانے کی سازشی منصوبہ بندی کے تحت قدیم فلسطینی ریاست کے اندر یہودیوں کی شکل میں خدا کی سرکش اور بگڑی ہوئی انسانی مخلوق کو آباد کرنے اور اس کیلئے فلسطین کے مقابل ریاست اسرائیل کے نام سے معرضِ وجود میں لانے کی ساری حکمت عملی خاکستر کر دیتی مگر:
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
اسرائیل پر حماس کے فاتحانہ حملے پر دو تین ممالک کے سوا‘ عرب دنیا بھی فوری طور پر مصلحتوں کے لبادے سے باہر نہ نکل پائی اور مسلم دنیا کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے بھی فوری انگڑائی لینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ اور ہمارے اپنے گھر کے اندر سے بھی فوری طور پر دفتر خارجہ کا بس پھسپھسا ردعمل سامنے آیا۔ اب مسلم دنیا کی قیادتوں نے اسرائیل کے اندر گھس کر حماس کے پے در پے حملوں اور اسکی فتوحات پر اسکے ساتھ رسماً یکجہتی کے اظہار کا سلسلہ شروع کیا ہے تو اس میں بھی زور حماس پر انسانیت کے احترام کا درس دینے پر لگایا جا رہا ہے۔ اور تنازعہ¿ اسرائیل و فلسطین کے دو ریاستی حل پر زور دیا جارہا ہے۔ اس مجوزہ حل پر امریکہ‘ برطانیہ اور انکے نیٹو حلیفوں کے سوا دنیا کی دوسری قیادتیں متفق الیہ نظر آتی ہیں اور او آئی سی کو بھی عالمی برادری سے یہ تقاضا کرنے کی توفیق ہو گئی ہے کہ وہ مداخلت کرکے فلسطینیوں کیخلاف اسرائیلی جارحیت رکوائے۔ ترک صدر اردوان کا فلسطینیوں کی حمایت میں پہلے روز ہی جاندار بیان آ گیا تھا جبکہ وزیر خارجہ پاکستان کا آج یہ بیان آیا کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ قابض اسرائیل تشدد بند کرے۔ امریکہ نے تو خیر اپنے کٹھ پتلی اسرائیل کو حربی کمک پہنچانے کیلئے اپنا جنگی بحری بیڑا بھی اسرائیل کی جانب روانہ کر دیا اور چین فلسطین و اسرائیل کو صبر و تحمل کی تلقین کرتے ہوئے جنگ بندی پر زور دے رہا ہے۔
اس عالمی چیخ و پکار سے بے نیاز ہو کر حماس کے لشکر اسرائیل کے ناجائز زیرقبضہ اپنے علاقوں کی جانب پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں اور عملاً اسرائیل پر سبقت حاصل کر چکے ہیں جنہیں مسلم دنیا کی جانب سے امریکہ جیسی اسرائیل کو دی جانیوالی کمک حاصل ہو تو صہیونی اپنی ماضی والی سازشوں اور مکاریوں سمیت ملیامیٹ ہو جائیں اور اپنے تئیں سپرپاور بنے بیٹھے امریکہ کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔ مگر جناب! اس عہدِ رائیگانی میں ہمیں اپنے ہوش و حواس کا پہلے جائزہ لے لینا چاہیے کہ ہمارے دانشور طبقہ کو حماس کے فاتحانہ حملوں پر خوشی سے زیادہ اسرائیل کے انٹیلی جنس نظام کے ناکام ہونے پر حیرت و مایوسی ہو رہی ہے اور وہ سوال پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ آیا اسرائیل کو واقعی حماس کے ان حملوں کا پیشگی علم نہیں تھا؟ جناب! آپ سالہا سال سے اسرائیلی مظالم سہنے اور اپنے پیاروں کے جسموں کے اسرائیلی بمباری سے چیتھڑے اڑنے کا منظر دیکھنے والے فلسطینیوں کے صبرِ ایوب کا بھی تو کچھ نہ کچھ مشاہدہ کرلیں۔ ان کیلئے تو یہ معرکہ فی الواقع زندگی یا موت والا معرکہ ہے جو سر کرنے کیلئے حماس نے اسرائیل کے جدید ترین ٹیکنالوجی سسٹم کو بھی اڑا کر رکھ دیا ہے۔ حماس کی اس مشاقی پر حیرت کا اظہار کرکے کیا ہم مسلم دنیا کی حربی استعداد پر خود ہی انگلیاں نہیں اٹھا رہے؟
اور پھر یہ کیا کہ ہمارے دانشور خواتین و حضرات کو اسرائیلیوں کی ہلاکتوں پر انسانیت کا درس یاد آنے لگا ہے۔ جب نہتے مظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں کو ہنود و یہود و نصاریٰ کی گھناﺅنی سازش کے تحت گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا ہے اور انکی عفت مآب خواتین کی عصمتوں سے کھیلا جاتا ہے تو ہمارے یہ دانشور خواتین و حضرات ذرا اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر تو بتائیں کہ کیا ایسے دلدوز واقعات پر بھی انہیں شدومد کے ساتھ انسانیت کی یاد ستائی ہے۔ آج اس جنگ میں بھی تو فلسطینیوں کی لاشیں بکھری ہوئی نظر آرہی ہیں۔ کیا ان کی ویڈیو کلپس آپ کے مشاہدے میں نہیں آتیں۔ آپ ذرا ان کیلئے بھی اپنے جذبہ¿ انسانیت کو بے شک گدگدگی کر کے جگالیں۔ مودی تو حماس کی کامرانیوں پر اس لئے تلملا رہا ہے کہ اسے مظلوم کشمیریوں پر اور بھارتی اقلیتوں پر اپنے ریاستی جبر و تشدد کیخلاف حماس جیسا ردعمل ہی ڈراﺅنا خواب بن کر کچوکے لگا رہا ہے۔ ہمیں تو ملحدوں پر طاری ہونیوالی اس کپکپی کو اپنے حق میں کیش کرانے کی کوئی سبیل نکالنی چاہیے چہ جائیکہ ہم اللہ کی سرکش قوم پر صرف ایک جہادی تنظیم حماس کے غلبے کے ثمرات انسانیت کے جھنڈے کے نیچے ضائع کرتے پھریں۔ کیا فلسفہ¿ انسانیت خالقِ کائنات رب کعبہ سے منسوب نہیں؟ اور خالقِ کائینات کی حکمت کے آگے کسی انسانی ذہنِ رسا کا فلسفہ انسانیت پر مار سکتا ہے۔ اگر ذات باری تعالیٰ نے حضرت نبی آخرالزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی گئی کتابِ حکمت میں بیسیوں آیاتِ مقدسہ کی سطور میں بدخصلت صیہونیوں کی احکام خداوندی سے مسلسل سرکشیوں پر انہیں معتوب‘ مردود اور سزاوار ٹھہرایا اور واضح الفاظ میں مسلمانوں کو ان سے دور رہنے کی تلقین کی تو انکے معاملہ میں انسانیت کو پکارنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔ سورہ¿ بقرہ، سورہ المائدہ، سورہ التوبہ، سورہ¿ نسائ، سورہ¿ آل عمران اور 37 کے قریب دوسری آیاتِ قرآنی میں یہودیوں کی شرانگیزیوں اور اللہ اور اسکے انبیاءکرام کے احکامات پر انکی ڈھٹائی اور سرکشی کا تذکرہ کیا انہیں انسانیت کے ناطے اپنے قریب کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔ اس پر تو ہمارے علماءکرام کو فصاحت اور بلاغت کے دریا بہا دینے چاہئیں تاکہ ہمارے ”دانشوروں“ کو بھی یہ ادراک ہو سکے کہ یہودی قبیلے خدائے عزوجل کی جانب سے کیوں مردود ٹھہرے ہیں۔
اس حوالے سے میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں پی ٹی آئی کی ایک خاتون رکن قومی اسمبلی کی اسمبلی کے فلور پر اسرائیل کی حمایت میں کی گئی تقریر کا حوالہ دیکر تاسف کا اظہار کیا تو پی ٹی آئی کے ایک ٹائیگر کو اپنے ای میل پیغام میں مجھے یہ طعنہ دینے کی سہولت حاصل ہو گئی کہ آپ کی تحریروں سے تو بغضِ عمران ٹپکتا ہے۔ اگر کلامِ رب کریم کے حوالے سے یہودیوں کی بدخصلتیوں کو اجاگر کرنا بھی بغض عمران ہے تو آپ اپنے اس فلسفہ کو اوڑھے رکھیں مگر میری ذات پر تنقید کے نشتر چلانے سے پہلے پی ٹی آئی کی متعلقہ رکن اسمبلی سے ضرور دریافت کرلیں کہ وہ اسرائیل کی حمایت میں اسمبلی کے فلور پر دیئے گئے اپنے بیان پر قائم بھی ہے یا نہیں۔ اور انسانیت کا درس محسنِ انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر بھلا کوئی اور دے سکتا ہے۔ بد خصلت یہودی تو نعوذ باللہ آپکے قتل کی ناپاک سازش بھی کیئے بیٹھے تھے۔