مشرقِ وسطیٰ میں امریکا اور یورپی ممالک کے تعاون سے قائم ہونے والی ناجائز اسرائیلی ریاست کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑا ہے تو ساری دنیا کو انسانی حقوق یاد آگئے ہیں لیکن غاصب صہیونی جب مظلوم فلسطینیوں پر مسلسل ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے تب کسی کو انسانی حقوق کا خیال نہیں آیا۔ حماس کے غاصب اسرائیل پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں امریکا سب سے منفی کردار ادا کررہا ہے جس نے فوری طور پر نہ صرف ظالم صہیونیوں کو آٹھ ارب ڈالر کی جنگی امداد دینے کا اعلان کیا بلکہ اپنا جنگی بحری بیڑا بھی اسرائیل کے نزدیک بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ اسرائیل کی مدد کے لیے جنگی بحری بیڑے کو اسرائیل کی طرف روانہ کر رہے ہیں۔ امریکا اسرائیل کو گولہ بارود بھی فراہم کرے گا۔ اسرائیل کو امریکی سکیورٹی امداد کی فراہمی آج سے شروع ہو جائے گی۔ ایک غیر ملکی خبر ایجنسی نے بتایا ہے کہ امریکی افواج کا مرکز پنٹاگون خطے میں لڑاکا طیارے بھی بھیج رہا ہے۔
امریکا خود بھی ایک غاصب ریاست ہے جو افغانستان، عراق اور لیبیا سمیت کئی مسلم ملکوں میں جنگ کی آگ بھڑکا کر ان ملکوں کو طویل عرصے کے لیے بد امنی کا شکار بنا چکا ہے۔ اب جس طرح اس کی طرف سے اسرائیل نامی ناجائز ریاست کو جنگ کے لیے مدد دی جارہی ہے اس کے بعد مسلم ملکوں کے حکمرانوں کو ہوش میں آنا چاہیے اور اس معاملے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدام کرنا چاہیے۔ جنگ کی کسی بھی صورت میں حمایت تو نہیں کی جاسکتی لیکن امریکا اگر طاقت کے نشے میں بدمست ہو کر غاصب اسرائیل کا ساتھ دیتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں پر مزید ظلم و ستم ڈھانے کے لیے اس کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے تو پھر تمام مسلم ممالک کو اکٹھے ہو کر ایک بار اسے یہ ٹھیک سے باور کرا ہی دینا چاہیے کہ طاقت کا جواب کیا ہوتا ہے اور مسلمانوں کے لیے قبلہ¿ اول کی حیثیت و اہمیت کیا ہے!
حماس نے راکٹ حملوں کی صورت میں غاصب صہیونیوں کے خلاف جس ردعمل کا اظہار کیا وہ اس مسلسل جبر کا نتیجہ ہے جو گزشتہ پون صدی سے جاری ہے اور جسے رکوانے کے لیے اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل سمیت مختلف عالمی و بین الاقوامی فورمز پر بیسیوں خصوصی اجلاس منعقد ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو آج اگر اپنی ناجائز ریاست کے باشندے ڈرے اور سہمے ہوئے نظر آرہے ہیں تو انھیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ کتنے عرصے سے مسلسل مظلوم فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کی کیا حالت ہے۔ حماس کی طرف سے جو کچھ کیا گیا وہ جابر اسرائیل کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا کہ ظلم کو برداشت کرنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے ناجائز قیام کے بعد یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اس قسم کی صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس سے پہلے بھی کئی بار عالمی امن کے ٹھیکیداروں کو مزاحمت کے ذریعے یہ احساس دلانے کی کوشش کی جاچکی ہے کہ فلسطینی اپنی مقدس سرزمین پر صہیونیوں کے ناپاک وجود کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ کیتھولک مسیحیت کے پیشوا پوپ فرانسس نے مشرقِ وسطیٰ میں پیدا ہونے والی تازہ صورتحال سے متعلق اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جنگ کبھی بھی مسائل کا بہتر حل ثابت نہیں ہوتی۔ اسرائیلی اور فلسطینی گروپ فوری طور پر تشدد کی کارروائیاں روکیں۔ لیکن دیکھنا یہ چاہیے کہ ایسی نوبت بار بار آتی ہی کیوں ہے؟ جب صہیونی آباد کار مسلسل فلسطینیوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ بڑھاتے جائیں گے اور مسجد اقصیٰ تک ان کی رسائی کے راستے مسدود کرتے جائیں گے تو پھر ردعمل کا سامنے آنا ایک یقینی بات ہے۔ پوپ فرانسس یقینا اس بات سے واقف ہوں گے کہ غاصب صہیونیوں کے ہاتھوں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ فلسطین کے مسیحی بھی تنگ ہیں اور انھیں بھی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں فلسطینیوں اور ان کے حامی گروہوں کے بارے میں یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ وہ تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تشدد تو ان پر ہورہا ہے جس کے بارے میں دنیا کو باخبر کرنے کے لیے وہ مختلف مواقع پر ظالم کا ہاتھ روکنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے اقدامات کو تشدد نہیں، مزاحمت کہا جاتا ہے۔
یہاں ایک قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک کی بڑی تعداد اب بھی کشیدگی کو ختم کر کے امن و سلامتی کے قیام پر زور دے رہی ہے لیکن امریکا اور اس کے حواری مسلسل طاقت کے استعمال کی بات کررہے ہیں۔ اگر مغربی ممالک کو طاقت کے خمار نے اندھا کر ہی دیا ہے تو پھر ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے مسلم ممالک کا اکٹھا ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ دنیا کو پوری طرح اس بات کا احساس دلا دیا جائے کہ طاقت کا استعمال صرف مغربی ممالک ہی نہیں جانتے اور گولہ بارود صرف انھی کے پاس نہیں ہے۔ امریکا غاصب اسرائیل کی پشت پناہی کر کے معاملات کو بگاڑنے کی جو روش اختیار کیے ہوئے ہے، یہ اسے مہنگی بھی پڑسکتی ہے کیونکہ ابھی تک وہ مسلم ممالک کو تنہا کر کے ان کے خلاف کارروائیاں کرتا رہا ہے۔ لیکن قبلہ¿ اول کے ضمن میں ایسا نہیں ہوگا اور جو صورتحال امریکا پیدا کرنا چاہ رہا ہے وہ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
اقوامِ متحدہ اور دیگر اہم علاقائی و بین الاقوامی ادارے اگر واقعی قیامِ امن کی خواہش رکھتے ہیں تو انھیں پہلے امریکا کو لگام ڈالنی چاہیے کیونکہ غاصب صہیونی اسی کی شہ پر مظلوم فلسطینیوں کے خلاف ایسے اقدامات کرتے ہیں جن کی وجہ سے مزاحمت کی وہ شکل سامنے آتی ہے جو ہفتے کے روز دکھائی دی۔ مزید یہ کہ امن و سلامتی کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک غاصب اسرائیلی ریاست کو 1967ء سے پہلے والی سرحدوں تک محدود کر کے مذاکرات کے ایک ایسے جامع عمل کا آغاز نہ کیا جائے جو اس مسئلے کے مستقل حل تک جاری رہے۔ اگر بین الاقوامی برادری واقعی دنیا میں امن و استحکام کے قیام کی خواہاں ہے تو پھر اسے فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو حل کرانا ہوگا ورنہ آج نہیں تو کل ان مسائل کی وجہ سے پھر ایسے حالات پیدا ہوجائیں گے جو دنیا کو دو دھڑوں میں بانٹ دیں گے اور اس بنیاد پر پوری انسانیت سنگین قسم کے مسائل کا شکار ہوسکتی ہے۔