تالمودیوں کی پگڑی۔

اسرائیل کو حیرانی ہوئی کہ حماس نے اتنا بڑا حملہ کر دیا اور اس کی انٹیلی جنس پیشگی اطلاع پانے اور دینے میں ناکام رہی اور کچھ دیگر حلقوں کو حیرت ہے کہ ایک بہت ہی چھوٹے سے رقبے‘ لاہور سے بھی کہیں کم علاقے میں محدود فلسطینی رضاکاروں نے اپنے ہتھیاروں کے انبار خفیہ ہی خفیہ کیسے نکالے۔ یہ اندھیرے تہہ خانوں میں ٰتربیت نہیں پا سکتے‘ لیکن ان کی بھی ماہر پلٹن کھڑی کر لی۔ حملے کے پہلے ہی روز حماس نے ساڑھے سات ہزار(5 ہزار دن کو ‘ 2 ہزار شام کو اور پانچ سو نیم شب کو) میزائل داغ ڈالے۔ اگلے روز پھر بوچھاڑ کی۔ اس نے وہ ”کمانڈرز“ کہاں سے تیار کئے جو دنیا کی کسی بھی بڑی فوج کے ایلیٹ کمانڈرز کی برابری کر سکتے ہیں۔ انہوں نے جادو کی سی پھرتی دکھائی‘ اسرائیلی بیرکوں اور بیس کیمپوں میں گھس کر اعلیٰ فوجی افسروں کی مشکیں کس لیں پھر اٹھا کر انہیں غزہ لے گئے۔
یورپی اور کئی عالمی مبصرین اسرائیلی آرمی کو دنیا کی چوتھی طاقتور ترین فوج قرار دیتے ہیں۔ پہلی تین پوزیشنیں امریکہ‘ روس اور چین کے پاس ہیں‘ لیکن حماس کی ننھی منی فوج نے اس چوتھی طاقتور ترین فوج کو ایک بار تو بے بس کرکے رکھ دیا بلکہ اس کی پگڑی بھی اتاری۔ اب آگے جو ہوگا‘ حماس کواس کا پہلے سے علم ہے۔ یعنی غزہ میں میں قتل عام ہو رہا ہے۔ اسرائیلی فضائیہ اور میزائل خانہ رہائشی عمارتوں‘ مسجدوں‘ سکولوں‘ ہسپتالوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ابھی تک کی اطلاع ہے کہ چار سو سے زیادہ فلسطینی شہری شہید ہوچکے‘ لیکن ایک رات پہلے غزہ کی 50 سے زیادہ ملٹی سٹوری عمارات اور سینکڑوں گھروں کو تباہ کیا جا چکا ہے۔ ملبہ اٹھانے پر شہداءکی تعداد بہت بڑھ سکتی ہے اور ابھی تو اسرائیل نے بدلہ لینا ہے۔ آج کل میں غزہ پر زمینی یلغار کا اعلان بھی ہو چکا ہے۔ اس دوران 700 سے زیادہ یہودی مارے جا چکے۔ سینکڑوں یرغمال ہیں۔ فوجیوں اور فوجی افسروں سمیت حماس کے ایک ترجمان نے انوکھی بات بتائی ہے کہ انہوں نے یہ جدید ترین ہتھیار یوکرائن والوں سے لئے۔ یوکرائن تو امریکہ اور اسرائیل کا اتحادی ہے۔ پتہ نہیں کیا چکر ہوگا۔ ویسے ترکی بھی یوکرائن کا دوست ہی نہیں‘ روس سے جنگ میں اس کا مددگار بھی ہے۔ کچھ ایسا ہی بیچ کا چکر ہوا ہوگا۔ ادھر اسرائیلی آرمی کے ایک بڑے افسر نے کہا ہے کہ حماس نے بعض وہ ہتھیار ہمارے خلاف استعمال کئے جو امریکہ افغانستان چھوڑ گیا تھا۔ حیرت والی بات ہے۔ اتنی دور سے ہتھیار کیسے غزہ میں پہنچے۔
................
غزہ کا رقبہ 365 مربع کلومیٹر ہے۔ہمارے لاہور کا رقبہ 1772 مربع کلومیٹر ہے۔ یعنی غزہ لاہور کے پانچویں حصے کے برابر۔ ایک عدد ڈی ایچ اے یا ایک عدد بحریہ سے کچھ ہی بڑا۔ یہ دیکھو تو حیرت کتنی بڑھ جاتی ہے۔ اسرائیل کا رقبہ 22145 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی ایک کروڑ ہے۔ غزہ کا رقبہ اس کا محض دو فیصد بلکہ اس سے بھی کم ہے اور اس دو فیصد رقبے میں 20 لاکھ سے بھی زیادہ آبادی ہے اور یہ دنیا کی غریب ترین آبادیوں میں شمار ہوتی ہے۔ بے پناہ غربت‘ لیکن سب کے سب فلسطینی پڑھے لکھے۔ لباس‘ وضع قطع اور اپنی دیکھ بھال ایسی کہ ایک بھی غریب نظر نہیں آتا۔ یعنی پوشش کی معراج ہے۔ پیٹ بھر کے کھانا ملتا ہے نہ پانی اور نہ ہی بجلی۔ دواو¿ں سے محروم‘ اچھی غذا سے محروم‘ ایک رات پ±رسکون نیند سے بھی محروم کہ اسرائیل کے حملے تو ہر روز کا معمول ہیں۔ ہر سال آٹھ دس ہزار نعشیں انہیں ملتی ہیں۔اس قوم کا ڈی این اے ایسا بدلا ہے کہ ریسرچ کا ایک نیا شعبہ بنانا چاہئے۔ بہت ہی حیرت زدہ کرنے والے معاملات ہیں۔ اور نہیں توغزہ کے حالات پرکم سے کم دو ڈاکومینٹریاں دیکھیں اور غم و حیرت کے سمندر میں ڈوب جائیں۔
................
اوپر یورپی اور بعض عالمی تجزیہ نگارں کا یہ فتویٰ لکھا کہ اسرائیل دنیا کی چوتھی بڑی طاقتور ترین فوج کا ملک ہے۔ یہ کچھ مبالغہ لگتا ہے۔ گزشتہ 50 برس کے جنگی معرکوں کا حال دیکھیں توپتہ چلے گا کہ ترکی کی فوج اسرائیل سے برتر ہے۔ جس طرح اس نے قبرص میں طاقتور یونانی فوج کو پچھاڑا اورجس طرح آذربائیجان پر قبضے کی جنگ میں طاقتور روس کو دھول چٹائی‘وہ اسرائیل کے خیال سے بھی آگے کی چیز ہے۔ اسرائیل نے تو مصرکو شکست دی۔ مصرکی فوج سیاست کا ادارہ ہے‘ لڑائی کا نہیں۔ اس کی مہارت تجارت میں ہے‘ حربیات میں نہیں۔ مصر کی فوج کو تو مالٹا کی فوج بھی شکست دے ڈالے۔ اسے ہرا کر اسرائیل نے کوئی کارنامہ نہیں کیا۔ غزہ میں آگ برسا کر وہ بنی اسرائیل کی مغلوب الیہ نفسیات کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ایک ایسا ہی ہنگامہ مستقبل قریب یا قدرے بعید میں مغربی کنارے پر بھی برپا ہو سکتا ہے۔ غزہ پر حماس کی حکومت ہے جو دراصل اخوان المسلمون ہے جبکہ مغربی کنارے پر پی ایل او کا کنٹرول ہے جو لبرل‘ سیکولر جماعت ہے‘ لیکن اسرائیل جس طرح‘ رات دن اپنی تجاوزات مغربی کنارے میں بڑھائے چلا جا رہا ہے‘ ہر روز نئی بستی مغربی کنارے کے اندر بنا رہا ہے۔ (حالانکہ کیمپ ڈیود معاہدے کے تحت مغربی کنارا سارے کا سارا فلسطین کا ہے) اس کے نتیجے میں وہاں بھی لاوا پھوٹ کر بہہ سکتا ہے۔ مغربی کنارے میں بھی حماس کی چالیس فیصد آبادی کی حمایت حاصل ہے۔اسرائیل وہاں پر تجاوزات کیوں کر رہا ہے؟ دراصل اسرائیل کو رقبے کی قلت کا سامنا ہے جبکہ دنیا بھر سے یہودی آبادکار مسلسل چلے آرہے ہیں۔ اس لئے تو اسرائیل کا رقبہ 22 ہزار کلومیٹر ہے‘ لیکن اس کا 60 فیصد سے بھی زیادہ علاقہ جنوب پر مشتمل ہے۔ سارے کا سارا صحرا۔ اسے نجف کا صحرا کہتے ہیں۔ (عراق والانحف ایک شہر ہے۔) یہاں اس طرح سے آبادی نہیں ہو سکتی اور شمالی اسرائیل کے محدود رقبے میں اسرائیلیوں نے بہت بڑے بڑے مکانات‘ بنگلے بنا رکھے ہیں۔ غزہ کی طرح نہیں کہ 80 فیصد سے بھی زیادہ آبادی کثیرالمنزلہ عمارتوں کے فلیٹوں میں ٹنگی ہوئی ہے۔ لیکن اسرائیل سے یہ کہا کس نے کہ ساری دنیا سے یہودیوں کو بلایا۔ دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ یہودی ایسے ہیں جو ابھی تک یورپ‘ امریکہ میں آباد ہیں۔ وہ سارے کے سارے آجائیں گے توکیا مغربی کنارہ سارے کا سارا ادھیڑ کر رکھنے کا ارادہ ہے؟۔
اب جو بھی ہونا ہے وہ تو ہوگا‘ لیکن حماس والے کہتے ہیں ہمیں سب پتہ ہے۔ ہم نے ساری کیلکولیشن کرکے رکھی ہے جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ادھر امریکہ سے امداد کا بحری بیڑہ بھی آگیا ہے اور ادھر سوائے ترکی کے ابھی بھی مسلمان ملک حماس کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ حماس کے پاس جتنے بھی ہتھیار ہیں‘ وہ سب ادھر ہی سے آئے ہیں یا انہوں نے خود بنائے ہیں۔ ایران القدس کا نعرہ ضرور لگاتا ہے‘ لیکن اس کی تمام تر ترجیحات شام اور یمن ہیں۔ ”القدس“ صرف کاغذات میں ہے۔ حزب اللہ اسرائیل پر کبھی حملہ نہیں کرے گی۔ دو چار مارٹر ضرور داغ دے گی۔ (البتہ) حماس نے‘ جیسا کہ اوپر لکھا‘ ایک بار تو اسرائیل کی پگڑی اتار کے رکھ دی۔ یہ تاثر کہ وہ حماس کے مقابلے میں ناقابل شکست ہے‘ ختم ہو گیا۔ ایک اور ضمنی فائدہ ہوا کہ نریندر مودی کے بھارت کا نقاب اتر گیا۔ وہ ”ہم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں“ کا نعرہ لگایا کرتا تھا۔ (پی ایل او آج بھی بھارت نواز۔) حماس کے حملے کے بعد یہ بھارت ہی تھا جس نے امریکہ کے فوراً بعد فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دیا۔
ایک نکتہ علماءکیلئے۔ یہودی اہل کتاب نہیں ہیں۔ وہ توراة کو کہاں مانتے ہیں۔ آ ج کے یہودی ”تالمود“ پر عمل کر رہے ہیں جو الہامی کتاب نہیں۔ کسی نے لکھی ہے۔ یہ تالمودی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن