وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے صوبے کی عوام کو دہشتگردی کے بعد سب سے بڑے ایشو یعنی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی طوفانی بارشوں اور قدرتی آفات سے بچائو کیلئے ہنگامی اقدامات کا اعلان کیاہے بلوچستان کی پسماندہ عوام جو پہلے ہی مختلف مسائل کا شکار ہے اور ہر سال سینکڑوں لوگ قدرتی آفات،طوفانی بارشوں اور سیلاب کی نذر ہورہے ہیں جبکہ مالی نقصان اسکے علاوہ ہے وزیر اعلی میر سرفراز بگٹی حیرت انگیز طور پر صوبے کی عوام کو صحت،تعلیم ودیگر سہولیات کی فراہمی کیلئے کوشاں رہتے ہیں جبکہ ان کی ترجیحات میں خواتین اور طالبعلم خصوصی طور پر سر فہرست نظر آتے ہیں خاص طور پر خواتین کو تعلیم کی فراہمی کیلئے اور انہیں صحت کی سہولیات کی فراہمی کیلئے بھی نمایاں اقدامات کررہے ہیں جو یقینی طور پر خوش آئند ہے گزشتہ دنوں اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی باگ ڈور جب نوجوانوں کے ہاتھ میں آئے گی تو بہت بہتری ا?ئے گی۔سرفراز بگٹی نے گرلز کالج جناح ٹاؤن میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہائی جین کٹس کے پروجیکٹ کو ا?گے بڑھانے کی ضرورت ہے، بلوچستان میں 30 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں جو ایک بڑا چیلنج ہے، بلوچستان میں اساتذہ کی 16 ہزار اسامیاں خالی ہیں۔
اْنہوں نے کہا کہ اب تک الف سے انار اور ب سے بکری پڑھا رہے ہیں، کوالٹی ایجوکیشن کی ضرورت ہے، معیاری تعلیم تو بہت دور کی بات ہے ہم بچوں کو اسکولوں میں لانے کا تو بندوبست کر لیں، بلوچستان میں 12 سال سے بند اسکول اب کھولے ہیں۔وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ کینیڈا میں موجود ڈاکٹر بلوچستان سے اپنی تنخواہ لے رہا ہے، 12، 12سال سے اساتذہ اور ڈاکٹرز ڈیوٹیاں نہیں دے رہے۔
اْنہوں نے کہا کہ بلوچستان کے پسماندہ اضلاع کی خواتین اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔سرفراز بگٹی نے کہا کہ سازش کے تحت ناراض نوجوانوں کو ریاست کے خلاف کیا جا رہا ہے، حکومت بچوں کو ہاروڈ اور آکسفورڈ بھجوا رہی ہے، ملک دشمن ان کو خود کش بنا رہے ہیں۔اْنہوں نے کہا کہ ملازمتوں میں میرٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، اساتذہ کو 18 ماہ کے لیے بھرتی کیا جا رہا ہے، جو بھی سرکاری ملازم ہو گا اسے ڈیوٹی دینا ہو گی۔وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کو باہر سے ا? کر کسی نے خراب نہیں کیا بلکہ اس میں اپنے لوگ ہی ملوث تھے۔اسی طرح وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نیایک اور تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے محرکات میں بلوچستان کا کردار نہیں تاہم ان تبدیلیوں کے اثرات سے بلوچستان شدید متاثر ہورہا ہے ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت دیرپا اقدامات تجویز کریں گے ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ایف ڈی آئی پاکستان کے زیر اہتمام کلائمیٹ کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا اس پینل میں وزیر اعظم کی کوارڈنیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینا خورشید عالم سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری ، صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ حمید خان درانی، سیکرٹری محکمہ جنگلات دوستین خان جمالدینی بھی موجود تھے جبکہ میزبانی کے فرائض فورم فار ڈگینیٹی انیشیٹیوز پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عظمیٰ یعقوب نے سرنجام دئیے، کانفرنس میں وزیر اعلٰی بلوچستان نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق طلبہ کے سوالات کے جواب بھی دئیے ۔ وزیر اعلی نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے جنگلات کا فروغ و تحفظ اشد ضروری ہے تجارتی بنیادوں پر جنگلات کی کٹائی قابل گرفت جرم ہے اس گھناونے کاروبار میں ملوث عناصر کے خلاف قانون کے مطابق لازماً کارروائی ہوگی ۔وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے گرین بسوں کے اوقات کار کو طالب علموں کی سہولت سے ہم آہنگ کرنے کا حکم بھی دیا تاکہ سکولوں کے طالب علموں کو آمد و رفت کی معیاری سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کو ہدایت کی گئی ہے کہ اس ضمن میں 5 روز میں جامع سفارشات مرتب کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔ دوسری جانب بلوچستان حکومت نے موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے گرین بلوچستان اقدام کے تحت خطیر فنڈز مختص کیے ہیں، جس نے حالیہ برسوں میں صوبے کو معاشی اور سماجی طور پر تباہ کر دیا ہے ویلتھ پاک نے سرکاری دستاویز کے حوالے سے بتایا ہے کہ صوبائی حکومت نے اس فنڈ کے تحت 10 ارب روپے مختص کیے ہیں دستاویز کے مطابق 2022 میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں صوبے میں بے پناہ مالی اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا اور بحالی میں پانچ سے سات سال لگیں گے۔متعلقہ حکام کا کہناہے کہ بلوچستان نے موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کو خشک سالی کے ساتھ ساتھ غیر متوقع طوفانی بارشوں اور سیلاب کی صورت میں بھی برداشت کیا ہے بلوچستان جو پاکستان کے جغرافیائی رقبے کا 44 فیصد ہے، انتظامی طور پر 35 اضلاع میں منقسم ایک وسیع رقبے پر ملک کی آبادی کا صرف 5 فیصد آباد ہے صوبائی حکومت میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے متعلق اہم اقدامات کئے جارہے ہیں حکومتی مشیر مہر بلوچ کا کہنا ہے کہ عصری موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں بلوچستان میں موسمیاتی خطرات ایک اہم مسئلہ ہے. اس حوالے سے مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ خطرہ جغرافیائی، موسمیاتی، اور سماجی اقتصادی عوامل کا نتیجہ ہے جو موسمیاتی اثرات کے لیے خطے کی حساسیت کو بڑھاتے ہیں۔ یہ موسمی تبدیلیاں براہ راست ذریعہ معاش پر اثر انداز ہورہی ہیں، بشمول گلہ بانی، کھیتی باڑی اور ماہی گیری، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر منفی سماجی اقتصادی نتائج برآمد ہورہے ہیں ۔
صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 44 کے 16 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ انتخابات کا حکم دے دیا گیاہے۔الیکشن ٹربیونل کی جانب سے پی بی 44 کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد پیپلز پارٹی کے عبیداللہ گورگیج رکن بلوچستان اسمبلی نہیں رہے، عبیداللہ گورگیج کی کامیابی کو نیشنل پارٹی کیعطا محمد بنگلزئی نے چیلنج کیا تھا۔واضح رہے کہ 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے عبید اللہ گورگیج 7ہزار 125 ووٹ لے کر بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے جبکہ ان کی مدمقابل نیشنل پارٹی کے عطا محمد بنگلزئی نے 6 ہزار 385 ووٹ حاصل کیے تھے۔