میرے سمیت صحافیوںکی ایک کثیر تعداد جو ریگولر یا یوٹیوب کے ذریعے بنائے چینلوں سے رزق کماتی ہے گزشتہ چار روز سے خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ جناب علی امین گنڈاپور کی ’’گمشدگی‘‘ اور بالآخر اتوار کی رات صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ازخود ’’ظہور‘‘ کے بارے میں چسکہ فروشی سے رزق کمارہی ہے۔ اپنی گمشدگی اور نمودار ہونے کے بارے میں موصوف جو داستان سنارہے ہیں وہ قطعاََ قابل اعتبار سنائی نہیں دیتی۔ بہتر یہی تھا کہ اتوار کی رات اسے سنادینے کے بعد خاموشی اختیار کرلیتے۔ وہ مگر بولے چلے جارہے ہیں ۔
بنیادی وجہ ان کے ہذیان کی وہ شکوک وشبہات ہیں جو ہفتے کے دن ہزاروں رکاوٹیں عبور کرکے اسلام آباد کے ’’حساس‘‘ علاقوں میں پہنچ جانے والے عاشقان عمران نے واجب بنیادوں پر پھیلائے ہیں۔ کوئی پسند کرے یا نہیں اجتماعی اعتبار سے ہزاروں میں ہونے کے باوجود ان نوجوانوں نے ٹولیوں اور گروہوں میں اسلام آباد کے کئی مقامات پر پولیس کو کئی بار لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیل پھینکنے کو اُکسایا۔ تحریک انصاف کی سیاست سے اختلاف رکھنے والے بے شمار گھرانے بھی ان نوجوانوں سے ہمدردی محسوس کرتے رہے۔ وہ پولیس سے گھبرا کر کسی گلی میں بھاگ رہے ہوتے تو کئی گھرانہیں دروازے کھول کر اندر بٹھالیتے۔ حکومت سے اسلام آباد کے باسی ویسے بھی شدید ناراض تھے کیونکہ اس نے جمعہ کی صبح سے اس شہر کو کنٹینروں کی مدد سے اٹھائی دیواروں میں محصور کردیا تھا۔ موبائل فونوں کی بندش نے انہیں پتھر کے زمانے میں غاروں میں رہنے والے گروہ بناڈالا۔
ایسے حالات میں اسلام آباد درآنے کے بعد علی امین گنڈاپور چائنہ چوک کے قریب جمع ہوئے جذباتی گروہ کا خون گرماتے ہوئے ڈی چوک کی جانب بڑھتے تو پولیس اور مقامی انتظامیہ وسیع پیمانے پر خون خرابے کے بغیر انہیں روکنے میں قطعاََ ناکام رہتی۔ تمام تر بڑھک بازی کے باوجود مگر علی امین گنڈا پور عملی اعتبار سے خان عبدالغفار خان کے اپنائے عدم تشدد کے فلسفے پر عمل پیرا دکھائی دئے۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں ان کے مذکورہ رویے کو اگرچہ سراہتا ہوں۔ خون خرابے سے بچنے کی خاطر ہی وہ ہفتے کی صبح گیارہ بجے کے بعد سیٹلائٹ فون پر چند افراد سے ہوئی گفتگو کے بعد اس کارروان سے کھسک گئے جو ان کی قیادت میں اسلام آباد پر دھاوا بولنے کے لئے صوابی سے روانہ ہوا تھا۔ اسلام آباد پر دھاوے کو آئے قافلے کو پنجاب پولیس نے کئی گھنٹوں تک آنسو گیس پھینکنے سے روکنے کی کوشش کی۔ علی امین کے کاررواں میں لیکن خیبرپختونخواہ کی پولیس سے لائے ایسے اہلکار بھی موجود تھے جو آنسو گیس کے شیل اپنے نشانوں پر پھینکنے کیلئے باقاعدہ تربیت یافتہ تھے۔
قابل غور بات جس پر مجھ جیسے چسکہ فروش صحافیوں نے غور نہیں کیا وہ یہ ہے کہ پشاور کو راولپنڈی سے ملانے والی تاریخی جی ٹی روڈ پر وفاق پاکستان کے دو صوبوں کی پولیس میرے اور آپ کے دئیے ٹیکسوں سے خریدی آنسو گیس ایک دوسرے کے خلاف اس انداز میں اچھال رہی تھی جیسے دو حریف ممالک کے افراد کی افواج ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اپنے پاس میسرہتھیار استعمال کرتی ہیں۔
پولیس کے افسران ’’سول سروسز آف پاکستان‘‘ کے لئے منتخب ہوکر بالآخر ’’پولیس سروس آف پاکستان‘‘ کا حصہ بنتے ہیں۔ اس کے بعد ہی انہیں مختلف صوبوں میں تعینات کیا جاتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پولیس کی نچلی سطح کی نفری اور اہلکار صوبوں ہی سے چنے جاتے ہیں۔ ان کی کمان مگر ’’پولیس سروس آف پاکستان‘‘ کے افسروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ بطور صحافی میرا فرض تھا کہ یہ جاننے کی کوشش کرتا کہ ’’پولیس سروس آف پاکستان‘‘ سے تعلق رکھنے والے کتنے اور کونسے افسران نے خیبرپختونخواہ کے منتخب وزیر اعلیٰ کو ریکارڈ پر یہ اطلاع دی کہ ان کا حکم سرآنکھوں پر۔ ’’پولیس سروس آف پاکستان‘‘ کے رکن ہوتے ہوئے وہ مگر اپنی زیر کمان نفری اور اہلکاروں کو اس قافلے کے ’’لشکری‘‘ نہیں بناسکتے جو اسلام آباد پر یلغار کی راہ میں حائل ایک دوسرے صوبے اور وفاق کی پولیس کے خلاف’’جنگ‘‘ برپا کردیں۔ ایک صوبے کی پولیس کا وفاق پاکستان کے ایک اور صوبے کی پولیس کے خلاف سیاسی جماعتوں کے مسلح کارکنوں کی صورت مدمقابل آنا کسی بھی حوالے سے قابل معافی نہیں ہے۔ ہم چسکہ فروش صحافیوں نے مگر اس پہلو کی جانب توجہ ہی نہیں دی۔
مذکورہ بالا تناظر میں خود کو کل رات سے معاف کرنے کو آمادہ نہیں ہورہا۔ ساری رات احساس جرم میں بستر پر کروٹیں لیتے گزاری ہے۔ شدید شرمندگی اس وجہ سے بھی محسوس ہورہی ہے کیونکہ گزشتہ ایک ہفتے سے ارادہ باندھ رہا تھا کہ سوڈان میں جاری خوفناک خانہ جنگی کے بارے میں تفصیل سے اپنے قارئین کی آگہی کے لئے کچھ لکھوں۔ یاد رکھنا ہوگا کہ افریقہ کا یہ اہم ترین ملک جو سونے جیسی قیمتی معدنیات سے مالا مال ہے قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک کی زندہ علامت شمار ہوتا تھا۔ اس ملک نے بھی طویل جدوجہد کے بعد سامراج سے ’’آزادی‘‘ حاصل کی تھی۔ ’’آزادی‘‘ کے حصول کے بعد مگر فوجی حکمرانوں نے اسے نیک راہ پر چلانے کی کاوشیں شروع کردیں۔ وہ ناکام رہے تو وہاں ’’اسلامی حکومت‘‘ قائم ہوگئی۔اسی حکومت نے اسامہ بن لادن کو اپنے ہاں افغانستان سے قبل پناہ دی تھی۔ ’’اسلامی حکومت‘‘ سے بھی مگر وہاں کے عوام اکتا گئے تو ایک ’’جمہوری تحریک‘‘ کا آغاز ہوا۔
ان دنوں سوشل میڈیا کی بدولت ’’انقلاب‘‘برپا کرنے کے متمنی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ سچی بات ہے میں بھی جھانسے میں آکر سوچنے کو مجبور ہوگیا کہ سوڈان میں بحالی جمہوریت کی تحریک کوروکنا ناممکن ہوگا۔ سوڈان کی فوج نے مگر جمہوریت کے خواہش مندوں کو مذاکرات میں مصروف کرلیا۔ انہیں ٹھنڈا کرنے کے بعد البتہ ’’آنے والی تھاں‘‘ پر واپس آگئے۔ سوڈانی فوج نے ’’علیحدگی پسندوں‘‘ پر قابو پانے کے لئے ایک خصوصی فورس بھی قائم کررکھی تھی۔ قانونی طورپر وہ فوج کی کمانڈ کے ماتحت ایک ادارہ ہے۔ ’’ملک کو یکجا رکھنے کے لئے ‘‘بنائی اس فورس کا سربراہ مگر باغی ہوگیا۔اب کئی مہینوں سے سوڈان کی باقاعدہ فوج اور مذکورہ فورس کے درمیان لڑائی جاری ہے۔سوڈان ان دونوں کے زیر نگین علاقوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ خرطوم جیسا تاریخی شہر دونوں جانب سے ہوئی وحشیانہ بمباری سے تباہ ہوچکا ہے ۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں سوڈانی اپنے ملک سے نکل کر باقی ملکوں میں پناہ ڈھونڈرہے ہیں اور سوڈان میں اس وقت قحط سالی سے لاکھوں افراد کے مرجانے کے امکانات سنگین سے سنگین تر ہورہے ہیں۔ علی امین گنڈاپور کی سنائی داستان سے چسکہ کشید کرتے ہوئے ایک لمحے کو سوچنا ہوگا کہ ہم سوڈان جیسی تفریق کی جانب تو نہیں بڑھ رہے۔