سرمایہ کاری کی طرف بڑھتا پاکستان، سری لنکا سے قیدیوں کی واپسی اور امن سکیورٹی فورسز کارروائیاں!!!!

پاکستان کے معاشی مسائل حل کرنے، ملک میں سرمایہ کاری، اداروں میں اصلاحات سمیت کاروبار کے معاملے میں دیگر امور کے پیش نظر مجھے وفاقی وزیر عبدالعلیم خان سے بہت امیدیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس انداز میں وہ ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں اسی سوچ، فکر، حکمت عملی، جنوں اور جوش و جذبے کے ساتھ ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے بھی کردار ادا کریں گے۔ یقینا ان کے پاس وقت ہے، وہ سوچ ہے جو تعمیر کی طرف لے کر جاتی ہے وہ قوم کا درد رکھتے ہیں، وہ اس ملک کو اپنی استطاعت اور حیثیت بہت کچھ واپس کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالعلیم خان فاؤنڈیشن اور اپنے مختلف اداروں کے ذریعے وہ اس ملک کی خدمت تو کر رہے ہیں لیکن اب چونکہ وہ وفاقی حکومت کا حصہ ہیں انہیں یہ کام وفاقی سطح پر کرنے کا موقع مل رہا ہے مجھے امید ہے کہ وہ کامیاب ہوں گے میری خواہش ہے کہ وہ کامیاب ہوں کیونکہ جن مشکل کاموں میں وہ مصروف ہیں اگر کامیاب ہوتے ہیں تو یہ ملک کے لیے بہت فائدہ مند ہو گا۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے مواقع بڑھ رہے ہیں، سی پیک پر دشمن کی نظریں ہیں، دشمن ہاتھ دھو کر سی پیک کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ ریاستی ادارے اور سیاسی قیادت ہر حال میں سی پیک مکمل کرنا چاہتی ہے۔ بدقسمتی سے کچھ اندرونی عناصر لوگ بھی بیرونی ایجنڈے کا شکار ہو رہے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ اندرونی طور پر لوگ بیرونی لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے اندر مخصوص علاقوں میں جس طرح کی سرگرمیاں ہو رہی ہیں وہ پاکستان دشمنوں کو فائدہ پہنچا رہی ہیں۔ دشمن ہمارے اندرونی عدم استحکام کا ہر طریقے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ بہرحال یہ ایک طویل بحث ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ کم از کم ہم اصلاحات کی طرف بڑھ ضرور رہے ہیں۔ اداروں میں اصلاحات، معاشی نظام میں اصلاحات،  ٹیکس نظام میں اصلاحات، حکومتی اخراجات میں اصلاحات سمیت ہر شعبے کو ٹھیک کرنے کا عمل اگر شروع ہوا ہے تو یہ کم سے کم وقت میں یک کام مکمل ہونا چاہیے۔ کیونکہ لوگ بہت تھک چکے ہیں، لوگوں کی ہمت جواب دے چکی ہے، لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ لوگ زندگی میں آسانی اور کچھ سکون چاہتے ہیں۔ کچھ آرام چاہتے ہیں، کچھ تسلسل کے خواہشمند ہیں لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ہو سکتا ہے جب سیاسی استحکام ہو گا اور حکومت کا عزم ہو گا کہ ہر حال میں عام آدمی کے مسائل حل کرنے ہیں اور عام آدمی کے لیے سہولت پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہیں۔ اس سے پہلے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ امید ہے کہ حکومت اس حوالے سے کام میں تیزی لائے گی۔ بالخصوص عام آدمی کے مسائل حل کرنے پر توجہ ہونی چاہیے۔ جہاں تک تعلق بیرونی سرمایہ کاری کا ہے تو گذشتہ روز اس حوالے سے بڑی پیشرفت ہوئی ہے اور ملک میں سرمایہ کاری کے معاہدوں کیلئے سعودی عرب کا اعلیٰ سطحی تجارتی وفد وزیر سرمایہ کاری خالد عبدالعزیز الفالح کی قیادت میں تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچا ہے۔ نورخان ایئربیس پر وفاقی وزیر عبدالعلیم خان ،  وزیر تجارت جام کمال، مصدق ملک اور دیگر اعلیٰ حکام نے وفد کا استقبال کیا۔ اس موقع پر سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی بھی موجود تھے۔ سعودی عرب کے وفد کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تیس معاہدوں پر دستخط کا امکان ہے جس کے تحت زراعت ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، کنسٹرکشن میٹریل ، پٹرولیم اور پاورسیکٹر ہیں لگ بھگ دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ اس کے علاوہ فوڈ سکیورٹی ، گوشت اور چاول کی برآمدات بڑھانے کیلئے معاہدوں پر بھی دستخط کئے جانے کا امکان ہے۔ سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیلئے سعودی وفد کے دورے کا شیڈول طے کر لیا گیا ہے۔ آج وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف سعودی وفد کے اعزاز میں عشائیہ دیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ سعودی وفد کے ساتھ ابتدائی بات چیت، سیکٹر اور بزنس ٹو بزنس سیشنز ہوں گے، سیشنز میں وزارت توانائی، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی حکام شامل ہوں گے، وزارت غذائی تحفظ، مواصلات اور وزارت پٹرولیم کے ساتھ بھی سیشن شیڈول ہے۔ بات چیت میں وزارت صنعت و پیداوار اور سروسز سیکٹر کے لوگ بھی شامل ہوں گے، مختلف سیشنز کے بعد سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان معاہدوں پر دستخط ہوں گے، وفد 11 اکتوبر کو نیشنل ایروسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک کا دورہ کرے گا۔ سعودی وفد کی عسکری حکام سے بھی ملاقاتیں بھی گیارہ اکتوبر کو متوقع ہیں۔ 
ایک طرف بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف بیرونی طاقتیں پاکستان میں امن و امان کے حالات کو خراب کرنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہیں۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے افواج پاکستان، حساس ادارے، رینجرز اور پولیس سمیت عام شہری بھی قیام امن کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ افواج پاکستان کی طرف سے دہشت گردوں کے خاتمے کی مہم جاری ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر پاکستان دشمنوں کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ضلع ڑوب میں دہشتگردوں کی فرنٹیئر کورکی چیک پوسٹ پرحملے میں اہم دہشتگرد سمیت دو دہشتگرد ہلاک ہوئے ہیں، اہم دہشتگرد عمر عرف عمری دہشتگردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث تھا۔ ضلع ڑوب میں دہشتگردوں نے فرنٹیئر کورکی چیک پوسٹ پرحملے کی کوشش کی ہے، سکیورٹی فورسز کی بھرپور جوابی کارروائی میں خودکش بمبار اور اہم دہشتگردسمیت دو دہشتگرد ہلاک ہوئے ہیں۔
دہشت پاکستان کے امن اور پاکستان کے مستقبل کے بڑے دشمن ہیں انہیں منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے افواج پاکستان کے افسران و جوان، رینجرز افسران و جوان اور پولیس افسران و اہلکار بھی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ دشمن ناکام و نامراد ہو گا اور پاکستان میں دوبارہ امن قائم ہو گا۔ اس کارروائی کے دوران دہشت گردوں کی کیمپ میں داخل ہونیکی کوشش کو سکیورٹی فورسز نے مؤثر طریقے سے ناکام بنا دیا ہے،دہشتگرد عمرعرف عمری دہشتگردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث تھا۔
شروع میں عبدالعلیم خان کی کوششوں کا ذکر ہوا ہے چند روز گذرے ہیں عبدالعلیم خان کی کوششوں اور مالی تعاون سے سری لنکا میں قید پاکستانیوں کی وطن واپسی بھی ممکن ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی اچھا کام کیا ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ سری لنکا میں کئی سال سے قید چھپن قیدی پاکستانی وطن واپس پہنچ گئے۔
 سری لنکا میں کئی سال سے قید پانچ خواتین اور اکاون مرد قیدیوں کو چارٹرڈ طیارے پر وطن واپس لایا گیا۔ اس معاملے میں وزیرداخلہ محسن نقوی نے پاکستانی قیدیوں کی وطن واپسی یقینی بنانے کے لیے سری لنکن ہائی کمشنر کے ساتھ اس مسئلہ کو اٹھایا جب کہ علیم خان نے پاکستانی قیدیوں کی سری لنکا سے وطن واپسی کے اخراجات برداشت کیے۔ 
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کہتے ہیں کہ قیدیوں کی وطن واپسی کے لیے تعاون پر سری لنکن حکومت اور ہائی کمشنر کے کردار کو سراہتے ہیں جبکہ قیدیوں کی واپسی کے اخراجات برداشت کرنے پر عبدالعلیم خان کا کردار بھی قابل تعریف ہے۔ 
وطن واپس آنے والی ایک بزرگ خاتون نے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزرا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا شکریہ کہ ہم پاکستان واپس آگئے ہیں، آپ کی بہت مہربانی یہ احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔
عبدالعلیم خان اور محسن نقوی کی بدولت وطن واپس آئے ہیں، جن حالات میں قید تھے، شکر ہے ہم واپس وطن آئے۔ وفاقی وزراء کو حکومتی کاموں کے ساتھ ساتھ ایسے معاملات پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ یہ ایک اچھا عمل ہے اور اس میں اپنے شہریوں کی خدمت کا جذبہ بھی نظر آتا ہے۔ باہر جانے والوں کو بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ ایسے کاموں سے دور رہیں جن کی وجہ سے زندگی مشکل ہو جاتی ہے۔
آخر میں فیض احمد فیض کا کلام
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بْنوائے ہوئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں میں محبت کے سوا
راحتیں او ربھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

ای پیپر دی نیشن