دنیا کی ایک مختصر ترین کہانی دو سطروں میں آ گئی ہے۔ کہانی یوں ہے کہ ایک صحافی نے کم عمر بچے سے انٹرویو کیا۔ ایک سوال یہ تھا کہ تم بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہو۔ اس نے کہا کچھ بھی نہیں۔ پوچھا یہ کیوں؟۔ بولا میں بڑا ہوں گا ہی نہیں۔
یہ بچہ غزہ کا تھا۔ یہ انٹرویو کئی دن پرانا ہے، ممکن ہے، اس دوران ہونے والی ان گنت بمباریوں میں یہ بچہ مارا جا چکا ہو۔ غزہ کی محدود آبادی میں سے اب تک 20 ہزار بچے مارے جا چکے ہیں، 50 ہزار اپاہج اور معذور ہو چکے ہیں یعنی بڑا ہو کر کیا بنو گے والا سوال، ان 50 ہزار بچوں کیلئے بھی بے معنی ہو چکا ہے۔ وہ معذور اور اعضا سے محروم ہو چکے ہیں اور بڑے ہو کر بھی اپاہج ہی رہیں گے۔ اس کے علاوہ وہ اور کیا بنیں گے۔
اہم بات یہ ہے کہ زندہ فلسطینی بچوں کو اس بات کا علم ہو گیا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ دنیا کے سامنے غزہ کی پوری نسل ختم کی جا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پوری دنیا نے ایکا کر لیا ہے کہ غزہ میں رہنے والی نسل کو اب ختم ہو ہی جانا چاہیے۔
غزہ کے بعد لبنان کی باری آ چکی ہے۔ بیروت اور بعلبک سمیت درجنوں شہراور قصبات اسرائیل کی مسلسل بمباری کی زد میں ہیں، اسرائیلی فوج جنوبی لبنان میں گھس چکی ہے اور بلاامتیاز قتل عام جاری ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ لبنان کی جنگ رکوانے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ غزہ میں بھی وہ کوئی کردار ادا نہ کرنے کی بات کر چکا ہے۔ حالانکہ دونوں جنگوں میں اس نے اسرائیل کو بے پناہ ہتھیار دئیے ہیں۔ ڈالر یعنی کیش رقم ادا کرنے کی ذمہ داری البتہ دو مالدار ترین عرب ملکوں کی تھی جو انہوں نے بڑھ چڑھ کر ادا کی اور ادا کر رہے ہیں اور ادا کرتے رہیں گے۔
کھنڈرات کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ جگہ جگہ غزہ کے بچے ان کھنڈرات میں کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان سے بات کی جائے تو کہتے ہیں، یہ ہماری ٹانگیں کل رہیں نہ رہیں، کیا پتہ، اس لئے ہم ہر بار کھیل کو اپنی زندگی کا آخری کھیل سمجھ کر کھیلتے ہیں۔
____________
فلسطین پر حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی، سب جماعتیں آئیں، صرف پی ٹی آئی نے بائیکاٹ کیا۔ میڈیا میں یہ خبر آئی تو ضرور لیکن غیر نمایاں انداز میں۔وجہ؟۔
وجہ وہی صحافتی اصول کہ کتا آدمی کو کاٹ لے تو یہ خبر نہیں، خبر یہ ہے کہ آدمی کتے کو کاٹ لے۔ اس اصول کی بنیاد پر پی ٹی آئی کا ’’اینٹی اسرائیل کانفرنس‘‘ سے بائیکاٹ کوئی خبر نہیں۔ ہاں، وہ کانفرنس میں شرکت کرتی تو خبر بنتی، بہت بڑی خبر، ہر کوئی کہتا، ارے یہ کیا ہو گیا۔
بہرحال، دعوت دینے والوں نے زیادتی کی۔ کل کلاں لندن میں مقیم فلسطینی کاز کی حامی جماعتیں زیک گولڈ سمتھ کو اپنے مظاہرے میں شرکت کی دعوت دے ڈالیں تو یہ ستم ظریفی نہیں ہو گی کیا؟۔
حکومت پاکستان کو بھی یہ ستم ظریفی نہیں کرنی چاہیے تھی جو اس نے کی۔ یہ ستم ظریفی نہیں، فسطائیت ہے کہ پی ٹی آئی کو اینٹی اسرائیل کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ بھیج دیا۔
____________
اسلام آباد میں ایک چائنا چوک ہے ، دوسرا ڈی چوک ۔ درمیان میں شاید آدھے گھنٹے کی مسافت ہے۔
چائنا چوک کا نام واضح ہے یعنی چین سے منسوب چوک۔ لیکن ڈی چوک کے ڈی سے کیا مراد ہے۔ پچھلے ہفتے یعنی 4 تاریخ کو پختون خواہ سے دو تین ہزار افراد ڈی چوک کی زیارت کیلئے تشریف لائے لیکن حکومت کی فسطائیانہ رکاوٹوں کے باعث زیارت کی سعادت سے محروم رہے۔ رات ڈھلتے ڈھلتے یہ دو تین ہزار کم ہو کر چھ سات سو رہ گئے تھے، باقی اپنی محرومی پر آنسو بہاتے ڈنڈے کھڑکاتے واپس چلے گئے۔ صبح کا سورج طلوع ہوا تو پتہ چلا کہ یہ چھ سات سو بھی غائب تھے۔
ڈی چوک میں ڈی کا کیا مطلب تھا،یہ تو پتہ نہیں لیکن اب اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی کیلئے ڈی سے مراد ڈی بیکل DE BACLE یا ڈس آسٹر DISASTER ہے۔ وجہ یہ کہ مرشد کا آرڈر تھا، نکلو، ہر حالت میں ڈی چوک پہنچو، وہاں بیٹھ کر دھرنا دو اور تب تک نہ اٹھو جب تک ہمیں حقیقی آزادی نہیں مل جاتی، مجھے رہا نہیں کر دیا جاتا اور ہمارا چرایا ہوا مینڈیٹ واپس نہیں مل جاتا۔ چرائے ہوئے مینڈیٹ سے مراد قومی اسمبلی کی وہ 188 سیٹس ہیں جن پر پی ٹی آئی جیت گئی تھی لیکن وہ دوسری جماعتوں کو دے دی گئیں۔ قومی اسمبلی میں 82 سیٹوں پر پی ٹی آئی پہلے سے موجود ہے۔ 82 اور 188 ملا کر 270 سیٹس بنتی ہیں۔ جبکہ قومی اسمبلی کی کل سیٹوں کی تعداد جن پر الیکشن ہوئے ہیں، 266 ہے۔
خیر، مرشد نے کہا تھا کہ 4 تاریخ آخری تاریخ ہے ، نہ نکلے تو تمہاری نسلیں بھی غلام بن جائیں گی۔ بعدازاں ڈی بیکل ہو گیا اور ڈس آسٹر بھی نہیں نکلا حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے عہدیدار بھی نہیں۔
وجہ؟۔ یہی کہ اب تو، مرشد کے فرمان کے مطابق ، ہم اور ہماری آنے والی نسلیں غلام تو بن ہی چکیں، اب کیا فائدہ۔
حقیقی آزادی کے دیئے بجھ چکے، زمین بوس ہونے والے خیموں کو ڈی چوک سے آنے والی آندھی اُڑا کر لے گئی۔ وہ جس نے کہا تھا کہ تیرا باپ بھی دے گا آزادی، جیل کا تالہ خود توڑ کر مرشد کو رہا کرائوں گا، اس کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ کسی کے باپ کے گھٹنے پکڑ کر معافی مانگتا پایا گیا ہے۔
____________
اِدھر آئی ایم ایف سے قرضے کی رقم ملی، اُدھر اس رقم سے کہیں زیادہ ڈالر بیرون ملک پاکستانیوں نے پاکستان بھیج دئیے۔ خبر ہے کہ اس ستمبر (ماہ گزشتہ) بیرون ملک پاکستانیوں نے 2.8 / ارب ڈالر کی ترسیلات زر کیں جو سال گزشتہ کے مقابلے میں 29 فیصد زیادہ ہیں یعنی ایک چوتھائی سے بھی زیادہ کا اضافہ۔
قوم کو تو ٹی وی چینلز پر بیٹھے ’’ہائبرڈ‘‘ تجزیہ کار اور اینکر پرسن بتایا کرتے تھے کہ حکومت نے اگر ’’مرشد‘‘ کو ہاتھ بھی لگایا تو بیرون ملک پاکستانی ترسیلات زر بند کر دیں گے اور پاکستان کا دیوالیہ نکل جائے گا، پاکستان دانے دانے کو محتاج ہو جائے گا لیکن حکومت نے مرشد کو نہ صرف یہ کہ ہاتھ لگایا بلکہ ہاتھ سے اٹھا کر پنجرے میں بھی ڈال دیا اور سمندر پار پاکستانیوں نے ترسیلات بند کرنے کے بجائے اُلٹا ان میں اضافہ کر دیا۔ یہ کیا سائنس ہے تجزیہ کارو؟
ڈی بیکل چوک
Oct 10, 2024