سیاست اور بغاوت میں فرق ہونا ضروری ہے 

امیر محمد خان 
یہ بات پی ٹی آئی نے اپنے پلے باندھ لی ہے کہ جب بھی پاکستان ترقی کی طرف گامزن ہو، جب بھی کوئی معتبرغیرملکی مہمان کا رخ کرے ملک میں وہ افراتفری پھیلا دو کہ دنیا کو پاکستان کا چہرہ مسخ لگے ، پی ٹی آئی کے حکومت نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں تو ملک کیلئے کوئی کارہائے نمایاں انجام نہیں دیا اسلئے اب وہ چاہتے ہیں کہ ’’ہم نہیں تو کوئی نہیں ‘‘وہ نہ جانے کیوں اس سوچ پر گامزن ہیں اورجو جماعت جو اپنے آپ کو سیاسی جماعت کہلوانا چاہتی ہے وہ کبھی ایسا نہیںسوچ سکتی، اپنے روزآنہ کے بدلتے ہوئے بیانا ت کی عوام میں عدم پذیرائی کی بناء اب یہ جماعت سیاست نہیں بغاوت پر اتر آئی ہے ، اپنی ابتدائی تحریک جس کے بعد اداروں اور کچھ شیطانی ذہنوں کے مالکان کی وجہ سے سازش سے وہ حکومت میں آگئے تھے اس دھرنے کے وقت بھی جو اعلانات ، جو پیغامات عوام کو دئے گئے وہ بھی بغاوت ہی تھے ، بجلی کے بل پھاڑ دو، بیرون ملک سے رقوامات بنکوںسے نہ بھیجو وغیرہ وغیرہ یہ بھی تو کسی نام نہاد سیاست جماعت کے بغاوت سے بھرپور بیانات ہی تھے ، مگر وہ حکومت میں’’لے آئے گئے ‘‘ جب حکومت کا خاتمہ ہوا تو پھر اسی روش پر چل نکلے ، آئی ایم کو خط لکھے گئے کہ پاکستان کو قرض نہ دینا، بیرون ملک بیٹھے تنخواہ دار اس جماعت کے افراد نے عالمی اداروںمیں اثر و رسوخ رکھنے والے افراد سے راہ رسم بڑھا کر انہیں پاکستان کے متعلق غلط معلومات پہنچاکر ان سے اپنی پسند کے بیانات دلوانے لگے اور ان بیانات کو اس جماعت نے اپنے سوشل میڈیا کارندوں کے ذریعے پھیلاکر پاکستان کے معصوم عوام کے ذہنوںکا پراگندہ کیا۔ تازہ ترین معاملات میں نہایت افسوس ناک بات ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس سے پہلے ایک طرف پی ٹی آئی کی جانب سے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی مدد سے احتجاج کر کے حالات خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسری جانب اس کے کچھ رہنما ایسے بیانات دے رہے ہیں جو صاف طور پر ملک دشمنی پر مبنی ہیں۔ سیاست اور جمہوریت کی آڑ میں کسی کو بھی ملک دشمنی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان خود ایک قانون دان ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنی جماعت کو ایسے عناصر سے پاک کرنے پر توجہ دیں جن کی وجہ سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ یہ جماعت پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کررہی ہے۔ احتجاج جمہوری حق ضرور ہے لیکن ایک صوبے کے سرکاری وسائل استعمال کر کے دوسرے صوبے یا وفاقی دارالحکومت میں انتشار پھیلانے کی کوششوں کے نتیجے میں ایسے مسائل پیدا ہوں گے جو پی ٹی آئی کی قیادت کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔حالیہ پی ٹی آئی کے طریقہ کار سے جسکی ذمہ داری اڈیالہ جیل سے گنڈہ پور کو دی گئی ہے، فضاء مسخ ہوگئی ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی کا یہ دعوی کو وہ مذاکرات چاہتی ہے ، پارلیمانی نظام کا اچھا بچہ بننا چاہتی ہے دوسری جانب سڑکوںپر خیبر پختون خواہ کے معصوم عوام کو سڑکوںپرلاکر غیر پارلیمانی طریقہ کار سے حکومت اور اداروںکو بلیک میل کرنا یقنی بات ہے اس سے طریقہ کار سے پی ٹی آئی کے وہ رہنماء جو صاف ستہری پارلیمانی سیاست کرنا چاہتے ہیں و ہ ضرور نالاں ہونگے چونکہ وہ کسی بھی بغاوتی عمل کے بعد صرف خاموشی اختیار کرلیتے ہیں انکے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا ، وہ بے چارے کتنا جھوٹ بولیں ؟؟؟ سابقہ اسپیکر اسمبلی اسد قیصر کا چہرہ بڑا معصوم نظر آتا ہے جب وہ پی ٹی آئی کے اقدامات کی حمائت کرتے ہیں مگر وہ پی ٹی آئی کے بغاوتی طرز عمل پر کچھ کہنے سے قاصر ہوتے ہیں چونکہ جو شخص اس جماعت کے بغاوتی طرز عمل سے اختلاف کرے گا یا اس کی حمائت نہیں کرے گا وہ دوسرے دن نکال دیا جاتا ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت اپنے اتحادیوںکے ہمراہ پی ٹی آئی کی پھیلائی ان خرافات کے باوجود پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے کوشاں ہے ،دوست ممالک میںگزشتہ سالوںمیں پاکستا ن کا جو وقار مجروح کیا گیا تھا وہ الحمداللہ بحا ل ہوچکا ہے ، مگر ابھی بھی وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو چوکنا رہنا ضروری ہے چونکہ انکی حکومت کی وزارتوں کے زیر سایہ ابھی کچھ لوگ ایسے بیٹھے ہیں جو مختصر ہی سہی مگر ’’قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے‘‘ کے مصداق وہ حکومت کی بدنامی ، اور اپنی استعاعت کے مطابق نقصان پہنچانے پر گامزن ہیں۔ پاکستان کے بیرون ملک سفارت خانے ، قونصل خانے ، پاکستان میں متعلقہ وزارتیں اس طرف توجہ نہیں دے رہی ہیں قونصل خانوں ، سفارت خانوںکی بات چھوڑیں وہ تو بادشاہ ہیں حکومت تبدیلی کے دوسرے منٹ میں انکی وفاداریاں تبدیل ہوجاتی ہیں انہیں دلچسپی نہیںہوتی ہے کہ حکومت کس جماعت کی ہو۔ ہاں وزارتوںکو اس پر بھر پور توجہ دینی چاہئے کہ انکی حکومت کے مثبت کام عوام کے ذہنوںتک پہنچائے جائیں۔ اسوقت حکومت حزب اختلاف کی تمام شر پسندآنہ کاروائیوںکے باجود معاشی ترقی کے مثبت اشاروں پر جارہی ہے ۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تعاون اور حکومتی کاوشوں سے ایشیا ئاور یورپ کے کئی ممالک پاکستان میں 27 ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کرنے کے لیے پرتیار ہو گئے ہیں۔ ان سرمایہ کاروں میں سعودی عرب 5 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات اور کویت 10، 10 ارب ڈالر اور آذربائیجان 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں۔ پاکستان میں 27 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بہت بڑا پراجیکٹ ہے۔یہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)کے بعد سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری ہوگی۔سی پیک پاکستان نہیں بلکہ پورے خطے میں گیم چینجر منصوبہ ہے۔پاکستان میں پہلے بھی برآمدات اور سرمایہ کاری کی باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن عملی اقدامات کم کم ہی نظر آئے لیکن 27 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری زبانی کلامی اور کاغذی منصوبے نہیں ہیں، یہ آن گرائونڈ نظر آرہے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب نے مجموعی طور پر 21 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ہیں جن میں آئل ریفائنری کے قیام کے لیے تقریباً 10 ارب ڈالر،گوادر پورٹ پر پیٹرو کیمیکل کمپلیکس کے لیے ایک ارب ڈالر اورپانچ ارب ڈالر کی تجارتی سرمایہ کاری شامل ہیں۔ سعودی آئل کمپنی ارامکو سال کے آخر تک پاکستان میں اپنا پہلا برانڈڈ ریٹیل گیس اسٹیشن شروع کرے گی ، گوگل ایک معتبر ادارہ دنیا چاہتی ہے کہ گوگل کی قربت حاصل کرسکے انہوںنے پاکستان رخ کیا ہے ،وہ 2026ء تک 500,000  chrome booksتیار کرے گی انہوں نے future for Pakistan پراجیکٹ ایک نہائت فائدہ مند پروگرام جس سے پاکستان کے ITکے شعبے کو فروغ حاصل ہوگا ۔ جب پاکستان کا مستقبل دنیا بہتر سوچتی ہے تو ہی پاکستان کا رخ کرتی ہے اورہم اپنی کرسی کی خاطر اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔ 
 

ای پیپر دی نیشن