تحریر: محمد محسن اقبال
پاکستان میں چینی ماہرین اور شہریوں کو نشانہ بنا کر قتل کیے جانے کے واقعات نے غیر ملکیوں کی سلامتی اور طویل مدتی ترقیاتی منصوبوں، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری کے استحکام کے بارے میں خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ یہ حملے محض اتفاقی نہیں بلکہ ایک وسیع، منظم حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کا مقصد پاکستان کی ترقی اور پاک چین تعلقات کو نقصان پہنچانا ہے۔ ان حملوں کے پیچھے چھپے حقیقی اسباب کو سمجھنا، فائدہ اٹھانے والوں کی نشاندہی کرنا اور ان واقعات کی منصوبہ بندی کرنے والی اندرونی اور بیرونی طاقتوں سے نمٹنا ضروری ہے تاکہ مشترکہ منصوبوں، بشمول سی پیک کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے اور پاکستان کے جیو پولیٹیکل اور اقتصادی مفادات کا تحفظ ہو سکے۔
ان حملوں کا ایک اہم سبب پاکستان کی اقتصادی ترقی کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری، جو کہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ ہے، بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا اہم منصوبہ ہے۔ یہ ایک طویل المدتی شراکت داری کی نمائندگی کرتا ہے جو پاکستان کو قابل ذکر اقتصادی فوائد پہنچانے کا وعدہ کرتا ہے، جن میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی، توانائی کے منصوبے، اور صنعتی زونز شامل ہیں۔ یہ شراکت داری پاکستان کو ایک علاقائی اقتصادی مرکز بنا سکتی ہے، جو ان لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے جو پاکستان کو ہمیشہ عدم استحکام اور انحصار کی حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ چینی شہریوں کو نشانہ بنا کر، یہ عناصر غیر ملکی سرمایہ کاری کو ڈرانے اور سی پیک کی ترقی کو روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاکہ پاکستان کی ترقی کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
بیرونی طاقتیں بھی ان حملوں میں اہم کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ کچھ علاقائی اور عالمی طاقتیں چین کے جنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے مطمئن نہیں ہیں، خاص طور پر پاکستان کے ساتھ اس کی مضبوط شراکت داری کے ذریعے سی پیک، جو تجارتی راستوں اور توانائی کی فراہمی کے حوالے سے اسٹریٹیجک اہمیت رکھتا ہے، حریف طاقتوں کے اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی عزائم کے لیے ایک براہ راست خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ طاقتیں عسکریت پسند گروپوں کو چینی اہلکاروں پر حملے کرنے کے لیے فنڈ فراہم کر سکتی ہیں یا ان کی حمایت کر سکتی ہیں تاکہ پاک چین تعلقات میں دراڑ پیدا کی جا سکے، چینی سرمایہ کاری کو کم کیا جا سکے، اور دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کی جا سکے۔ اگر یہ کوششیں کامیاب ہوتی ہیں تو یہ بیرونی عناصر اس بات کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ چین کا خطے میں اثر و رسوخ کم ہو جائے اور پاکستان کی معیشت کمزور ہو جائے۔
اندرونی طور پر، ایسے گروہ موجود ہیں جو نظریاتی طور پر پاکستان کی چین کے ساتھ تعاون کے مخالف ہیں یا جن کے اپنے مفادات ہیں کہ ملک کے کچھ حصے غیر مستحکم رہیں۔ مثال کے طور پر بلوچ علیحدگی پسند گروپ، اکثر چینی کارکنوں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ یہ گروپ سی پیک کو اپنے مقصد کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس سے مقامی آبادی کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور صوبے کے وسائل کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کے مسائل مقامی نوعیت کے ہو سکتے ہیں، لیکن انہیں اکثر ان بیرونی طاقتوں سے تعاون کا الزام دیا جاتا ہے جو خطے کو غیر مستحکم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ پاکستان میں سرگرم دیگر شدت پسند گروپ بھی ریاست کو کمزور کرنے، عدم تحفظ کا ماحول پیدا کرنے، اور اپنے مفادات کے لیے عالمی توجہ حاصل کرنے کے لیے ان حملوں کو انجام دے سکتے ہیں۔
ان حملوں سے فائدہ اٹھانے والوں کی شناخت کرنا مشکل نہیں ہے۔سی پیک کی ترقی کو پاکستان کی اقتصادی اور اسٹریٹیجک صلاحیتوں میں اضافے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو بھارت کے خطے میں اثر و رسوخ کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اس طرح، سی پیک میں کوئی بھی رکاوٹ، جیسے چینی سرمایہ کاری میں کمی یا منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر، بھارت کے اسٹریٹیجک مفادات کی خدمت کرے گی۔ مزید برآں، کچھ مغربی طاقتیں، جو چین کے عالمی عروج سے محتاط ہیں، سی پیک کی رکاوٹ کو چین کے اثر و رسوخ کو ایشیا اور اس سے آگے محدود کرنے کی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ سمجھ سکتی ہیں۔
ان حملوں کے سی پیک اور دیگر مشترکہ منصوبوں پر اثرات بہت زیادہ ہیں۔ جب بھی چینی شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، یہ چین کے ساتھ ساتھ دیگر ممکنہ سرمایہ کاروں اور غیر ملکی کارکنوں کو عدم تحفظ کا پیغام دیتا ہے۔ اگرچہ چین نے پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری جاری رکھنے میں غیر معمولی ثابت قدمی دکھائی ہے، لیکن بار بار ہونے والے حملے خطرے کی دوبارہ جانچ کا باعث بن سکتے ہیں۔ چینی کمپنیاں اور کارکن مضبوط سیکیورٹی ضمانتوں کا مطالبہ کر سکتے ہیں، جس سے ان منصوبوں کی لاگت میں اضافہ ہو جائے گا۔ بدترین صورت حال میں، مسلسل تشدد چین کی شمولیت میں کمی کا باعث بن سکتا ہے، جو پاکستان کے اقتصادی مستقبل کے لیے ایک بڑا دھچکا ہو گا۔ دیگر ممالک بھی مشترکہ منصوبوں میں شامل ہونے سے ہچکچائیں گے اگر وہ یہ سمجھیں کہ پاکستان غیر ملکی شہریوں کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے۔
پاکستان کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، حکومت کو غیر ملکی کارکنوں، خاص طور پر سی پیک سے وابستہ افراد کے لیے سیکورٹی کے اقدامات کو نمایاں طور پر بہتر بنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ، پاکستان اور چین کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ اور کوآرڈینیشن کو مضبوط کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل کے حملوں کو روکا جا سکے۔
دوسرا، پاکستان کو ان اندرونی مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہے جو ان حملوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان علاقوں میں، جیسے بلوچستان، جہاں سی پیک کو ترقی کی بجائے محرومی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، حکومت کو مقامی کمیونٹی کے ساتھ بات چیت میں شامل ہونا چاہیے۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ ان منصوبوں سے مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع اور سماجی ترقی کے اقدامات کے ذریعے فائدہ پہنچے، ان شکایات کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے جنہیں عسکریت پسند گروہ استعمال کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں اقتصادی ترقی اور سیاسی شمولیت عسکریت پسندی کی اپیل کو کم کرے گی۔
علاوہ ازیں سفارتی محاذ پر، پاکستان کو ان بیرونی عناصر کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے جن پر ان حملوں کی سرپرستی یا سہولت فراہم کرنے کا شبہ ہے۔ مؤثر سفارت کاری کے ذریعے، پاکستان کو بین الاقوامی فورمز میں ثبوت پیش کرنا چاہیے اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ان کوششوں کا مقابلہ کرنا چاہیے جو چین کے ساتھ اس کے تعلقات کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو چین کے ساتھ ہم آہنگ رہنا چاہیے جبکہ ساتھ ہی ہمسایہ ممالک کے ساتھ بات چیت کے ذریعے کشیدگی کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں چینی شہریوں پر حملے الگ تھلگ واقعات نہیں بلکہ ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کا مقصد پاکستان کی اقتصادی ترقی کو روکنا اور چین کے ساتھ اس کی شراکت داری کو کمزور کرنا ہے۔ اس عدم استحکام میں اندرونی اور بیرونی دونوں قوتیں ملوث ہیں، اور ان کا مقصد سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کو نقصان پہنچانا ہے جو پاکستان کے مستقبل کے لیے اہم ہیں۔ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے، پاکستان کو متعدد محاذوں پر فوری اقدامات کرنے ہوں گے: سیکورٹی کو بہتر بنانا، اندرونی مسائل کو حل کرنا، اور بیرونی خطرات کا سامنا کرنا۔ صرف اسی صورت میں پاکستان اپنے اقتصادی مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے اور چین کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات کو برقرار رکھ سکتا ہے۔