اسرائیلی جارحیت کا ایک سال مکمل

اپنے 76 سالہ پاکستان کے کمزور اور غیرمتوازن جمہوری سیٹ اپ اور روزافزوں بڑھتے مسائل سے نڈھال و پریشان عوام کے بارے میں بیشتر سیاست دانوں کی مفاداتی فکرونظر اور ان کے منفی رویوں کا جب بھی تجزیہ کرتا ہوں‘ ان میں قومی مایوسی کی واضح جھلک نمایاں نظر آتی ہے جس سے فوری طور پر یہ اندازہ لگانا کہ مسائل اور سیاسی عدم استحکام کا شکار عوام قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر کیوں مجبور ہوئے‘ اب قطعی دشوار نہیں رہا۔ آپ بھی یقیناً یہ اندازہ لگا چکے ہونگے کہ اپنے اس قومی رونے دھونے کی ضرورت پر دوسرے کا غم محسوس کرتا ہوں۔ بنیادی طور پر اس کی متعدد وجوہات ہیں مگر بڑی وجہ یہاں کا وہ ملٹی کلچر معاشرہ ہے جہاں سچ‘ دیانت داری اور فرض کو ہر شعبہ زندگی میں فوقیت دی جاتی ہے۔ 
14جماعتیں پاس میرا ایک گورا کولیگ جو کئی سالوں سے لفظ ’’خان‘‘ کی ’’کھان‘‘ کے لہجے میں ادائیگی کر رہا تھا‘ شکر ہے اس رب العالمین کا‘ ٹھیک پانچ برس بعد اس نے لفظ’’ کھان‘‘ کو اب ’’خان‘‘ کہنا شروع کر دیا ہے۔ اردو کے کئی دیگر مشکل لفظوں کی ادائیگی پر بھی اس کی اچھی خاصی گرفت ہو چکی ہے۔ یادوں کی محفل میں خاموشی کو وہ باالعموم ترجیح دیتا ہے مگر اردو زبان میں تلفظ کے ہمراہ جواب دینے میں اسے اب کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں۔ اس کا مجھ سے ہمیشہ یہ گلہ رہتا ہے کہ اپنے وطن عزیز پاکستان کے بڑھتے سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی بحرانوں کا رونا تو میں ہر چوتھے روز ’’ولایت نامہ‘‘ میں روتا ہوں مگر عملی طور پر معاشرے میں پھیلی برائیاں جن میں کرپشن‘ عدم فرض شناسی‘ اقرباپروری اور غربت کے خاتمہ کے علاوہ بانی پاکستان محمدعلی جناح اور مفکر پاکستان علامہ اقبال کے فرمودات اور اقوال پر عمل پیرا ہونا شامل ہے‘ حکومتی سطح پر کیوں ایسی Remedy تیار نہیں کرواتا جس سے ملکی اور قومی مسائل کے فوری حل میں مدد ملے؟ مگر اسے جب کہتا ہوں کہ بلامعاوضہ دیئے نسخوں کا میرے پاس لائسنس تک نہیں تو وہ مجھے شیکسپیئر اور برٹنڈرسل میں اُلجھا کر مزید ادبی اور سیاسی طعنے دینا شروع ہو جاتا ہے اور یوں ہماری سیاسی اور ادبی بحث کا دائرہ کار مذہب کے اصولوں تک جا پہنچتا ہے۔ 
ملک میں سیاسی طور پر جو کچھ ہو رہا ہے‘ یا آئندہ ہونے جا رہا ہے‘ یہ ایک انتہائی افسوسناک صورتحال ہے جس کی کسی بھی مہذب معاشرے میں قطعی گنجائش نہیں۔ مہذب ممالک میں اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے پرامن عوامی مظاہرے جمہوریت کا حسن ہیں جن کی ہر جمہوری ملک اجازت دیتا ہے کہ عوامی رائے اور اظہار خیال سے ہی زندہ قوموں میں وسعت اور قومی شعور پیدا ہوتا ہے۔ مگر افسوس‘ صد افسوس! کہ ہماری سیاست ایک انتہائی خطرناک صورت اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔ تحمل و برداشت اور احترام کے تمام رشتے ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حالات جب اس نہج پر پہنچ جائیں تو ترقی پذیر ممالک میں ایسی جمہوری سیاست شکوک و شبہات کا شکار ہو کر دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بن جاتی ہے۔ اگلے روز اسلام آباد میں ہونیوالے پرتشدد مظاہرے‘ فوج کی تعیناتی‘ مظاہرین کا پولیس پر پتھرائو‘ پولیس کی مظاہرین اور بالخصوص خواتین اور بچوں پرآنسو گیس شیلنگ‘ کے پی کے کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے قافلوں پر تشدد‘ پنجاب میں دفعہ 144‘ اجتماعات‘ جلسے‘ جلوسوں‘ پرامن مظاہروں پر لاٹھی چارج اور کے پی کے وزیراعلیٰ کا ڈرامائی طور پر گم ہو جانا ایسے افسوسناک واقعات ہیں جن سے پاکستان کی دنیا میں بلاشبہ بدنامی ہوئی ہے۔ 
اتحادی حکومت کا یہ فرض تھا کہ اسلام آباد اور اس کے گردونواح‘ موٹرویز اور داخلی شاہراہوں کو کنٹینرز سے بند کرنے کے بجائے کسی بھی حالت میں ٹیبل ٹاک کا سہارا لیتی تاکہ معاملات یہاں پہنچ ہی نہ پاتے۔ اسی طرح تحریک انصاف کی مرکزی قیادت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ جلسہ کی تاریخ میں ردوبدل کرکے ملکی استحکام کی خاطر حکومت سے مذاکرات کرتی تاکہ آئندہ چند روز بعد منعقد ہونے والی شنگھائی کواپریشن آرگنائزیشن کانفرنس کو اجتماعی طور پر کامیاب بنایا جا سکتا۔ امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانا چنانچہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اس لئے جب تک یہ کانفرنس خوش اسلوبی سے کامیاب نہیں ہوجاتی‘ ہو سکتا ہے حکومت اور تحریک انصاف کے مابین آنکھ مچولی کا یہ سلسلہ جاری رہے جو ملک و قوم کیلئے کسی حال میں سودمند نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شنگھائی کانفرنس کو ہر حال میں کامیاب بنایا جائے۔ اس طرح پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا بھی یہ فرض ہے کہ عوام سے ہر ممکن دوستانہ رویہ رکھیں تاکہ عوام کا اپنے اداروں پر اعتماد بحال رہے۔ 
آخر میں عوام اور پولیس کے مابین دوستانہ تعلقات کی ایک مثال! وسطی لندن میں برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈائوننگ سٹریٹ کے سامنے اگلے روز مظلوم فلسطینیوں اور غزہ میں شہید کئے گئے 42 ہزار عورتوں بچوں کی یاد میں اسرائیلی جارحیت کے وحشیانہ اقدامات کا ایک سال مکمل ہونے پر ایک تاریخی Demonstration (مظاہرہ) کا انعقاد کیا گیا جس میں ایک غیرسرکاری محتاط اندازے کے مطابق تین لاکھ افراد نے شرکت کی۔ فلسطین کی آزادی اور لبنان سے اظہار یکجہتی کے اس تاریخی مظاہرے کا آغاز لندن کے مختلف علاقوں سے ہوا۔ مظاہرین کا سمندر رسل سکوائر‘ چیئرنگ کراس اور ٹرافالگر سکوائر سے ہوتا ہوا دوپہر دو بجکر 30 منٹ پر وائٹ ہال وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈائوننگ سٹریٹ کے سامنے پہنچا جہاں مرکزی سٹیج لگایا گیا تھا۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے ایک چیف کی عوام دوستی کا یہ عالم کہ بزرگوں‘ عمر رسیدہ خواتین‘ ننھے بچوں اور اپاہجوں کا ہاتھ پکڑ کر انہیں فرش پر بٹھاتا رہا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں ’’فلسطین کو آزادی دو‘ امریکی غلامی منظور نہیں‘ اسرائیل کو اسلحہ دینا بند کیا جائے‘ وزیراعظم سٹارمر کے ہاتھوں پر فلسطین کا خون ہے‘‘ کے بینرز اٹھا رکھے تھے۔ یہ مناظر دیکھتے ہوئے چند ثانیہ کیلئے اسلام آباد اور لاہور میں ہونیوالے مظاہرے میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔ سوچ رہا تھا جس جمہوریت کا رول ماڈل ہم نے حاصل کیا‘ کیا وجہ ہے کہ 76 برس گزرنے کے باوجود قوم اس میں کامیابی حاصل نہیں کرپائی؟ 
مرکزی سٹیج پر مختلف فلسطینی لبنانی اور عالمی اسلامی تنظیموں کے رہنما موجود تھے‘ بہرے لوگوں کو سٹیج کے قریب میڈیا انکلوژر کے ساتھ سیٹیں فراہم کی گئی تھیں‘ ایسے افراد کیلئے Sign language  کا خصوصی انتظام تھا۔ مقررین میں لیبر پارٹی کے سابق لیڈر اور انڈیپنڈنٹ رکن پارلیمنٹ جیری کوربن آر ایم ٹی کے صدر کوونٹری سے آزاد رکن پارلیمنٹ سلطانہ اور ڈیوزبری سے آزاد رکن پارلیمنٹ اقبال محمد اور دیگر تنظیموں کے رہنمائوں نے اسرائیلی جارحیت اور غزہ لبنان میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور ایران لبنان پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی۔ مظاہرے کے اختتام پر ایک فلسطینی شاعر و گلوکار نے آزادی فلسطین کیلئے عربی میوزک پر ایک خوبصورت نغمہ پیش کیا۔ 

ای پیپر دی نیشن