چند تاریخی حقائق اور موجودہ سیاسی حالات

1965ء کی جنگ کے سیزفائر کے لئے معاہدہ تاشقند کے وقت پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو‘ صدر ایوب خان کے ہمراہ تاشقند گئے۔ بھارتی وفد کے آنے سے قبل پاکستانی وفد وہاں پہنچ چکا تھا۔ بھارتی وفد کی آمد پر روسی صدر نے صدر ایوب خان کو کہا کہ آئیں‘ بھارتی وفد کا استقبال کرلیتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ صدر ایوب خان قدکاٹھ میں ماشاء اﷲ قدآور شخصیت کے حامل تھے جبکہ بھارتی وزیراعظم شاستری چھوٹے قد کے مالک تھے۔ جب بھارتی وفد آیا تو ایوب خان کو دراز قد ہونے کی وجہ سے بھارتی وزیراعظم شاستری کو ملنے کے لئے جھکنا پڑا تو پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس پر خفگی کا اظہار کیا اور اس موقع پر یہ خبر دنیا بھر کے میڈیا کی زینت بنی۔ اس کے علاوہ تاشقند میں کوئی اختلافی بات نہیں ہوئی تھی کہ ایوب خان اور بھٹو کے درمیان کوئی اختلاف پیدا ہوتا۔ اس بات کو لیکر ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے علیحدگی اختیار کی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے علیحدہ جماعت بنائی اور عوام کے ووٹوں سے انہیں کامیابی واقتدار ملا۔
پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات یحییٰ خان نے 1970ء میں منعقد کرائے تھے جس کے نتائج کو جمہوری اصولوں کے مطابق تسلیم کرکے اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کرنے کے بجائے ملک کو دولخت تو کردیا گیا لیکن اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار نہیں دیا گیا۔ اگر اس وقت سیاستدان جمہوری اصولوں پر چل کر اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار دینے پر آمادہ ہوتے تو کوئی ایسی قوت نہیں تھی جو ایسا نہ کرنے دیتی لیکن سیاستدانوں نے ذاتی اقتدار کی خاطر غیر جمہوری طرز عمل اختیار کیا۔
1977ء کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف 9 ستاروں ’’قومی اتحاد‘‘ کی تحریک زوروں پر تھی۔ بھٹو صاحب اقتدار میں تھے جبکہ دوسری سب سے بڑی جماعت کے سربراہ ایئرمارشل اصغر خان تھے۔ ایئرمارشل اصغر خان کی مقبولیت ایسی تھی کہ کراچی نشتر پارک میں قومی اتحاد کے جلسے میں خطاب کے لئے وہ سہہ پہر 4بجے کراچی ایئرپورٹ پر اُترے تھے اور نشترپارک تک پہنچنے میں انہیں 8گھنٹے لگ گئے تھے اور جب وہ رات 12بجے نشترپارک پہنچے تو عوام ان کا خطاب سن کر فوری طور پر جلسہ گاہ سے چلے گئے تھے۔ ایئرمارشل اصغر خان کے ساتھ میں نے 40سال کا عرصہ گزارا ہے اور آج بھی انہی کی جماعت کے نام پر میری پہچان ہے۔ وہ ذاتی طور پر اس طرز عمل پر قطعی خوش نہیں تھے کہ 8گھنٹے تک کراچی کی سڑکیں جام رہیں اور جلوس ایئرپورٹ سے نشترپارک آتا رہا۔ وہ تو اکثر کہتے تھے کہ جلوس کے بجائے کسی کشادہ جگہ پر جلسہ منعقد کیا جائے اور جس نے شرکت کرنی ہوگی وہ خود وہاں آئے گا۔ سڑکیں بند کرنا اور عوام کو تکلیف پہنچانا درست نہیں ہے۔اس وقت تحریک استقلال میں شیخ رشید‘ عابدہ حسین‘ فخر امام‘ میاں نوازشریف‘ میاں شہباز شریف‘ نثار کھوڑو سمیت سینکڑوں نامور سیاستدان موجود تھے کیونکہ ایئرمارشل اصغر خان بھٹو صاحب کے بعد ملک کے سب سے بڑے اور نامور سیاستدان تھے۔
ایئرمارشل اصغر خان نے بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور جب مارشل لاء لگنے کے بعد ضیاء الحق اقتدا ر میں آئے تو انہوں نے براہ راست اور دیگر ذرائع سے کئی بار ایئرمارشل اصغر خان کو وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی۔ ایئرمارشل اصغر خان نے ہمیشہ یہ کہہ کر پیشکش مسترد کی کہ میں نے عوام کی خدمت کے لئے اقتدار میں آنا ہے‘ کسی کی نوکری کے لئے نہیں۔ ماضی گواہ ہے کہ ان کی اس ضد کی وجہ سے ہی ضیاء الحق کے اقتدار کے ابتدائی 5سال اور 3ماہ تک ایئرمارشل اصغر خان اپنے گھر میں نظربند رہے حالانکہ انہوں نے تو کبھی اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ نہیں کیا تھا نہ ہی انہیں روکنے کے لئے حکومت کو جی ٹی روڈ پر خندقیں کھودنی پڑی تھیں اور نہ ہی کیلیں بچھانی پڑی تھیں۔ ایئرمارشل اصغر خان اپنے سیاسی اصولوں پر قائم رہے اور اقتدار میں آنے کے بہترین مواقع مسترد کرتے چلے گئے جس کے نتیجے میں وقت کے ساتھ ساتھ ان کی جماعت سے لوگ دوسری جماعتیں بناکر سیاست کرکے اقتدار تک پہنچے۔
ایئرمارشل اصغر خان کی جماعت وقت کے ساتھ سکڑتی چلی گئی اور 1999ء کے بعد ان کے اپنے بیٹوں نے دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کرلی۔ ایئرمارشل اصغر خان نے صورتحال دیکھ کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ یہ تمام تاریخی باتیں لکھنے کا مقصد اس وقت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو یہ بات سمجھاناہے کہ بے شک اس وقت عوام آپ کے ساتھ ہے۔ آپ کی کال پر لاکھوں لوگ نکل آتے ہیں لیکن ضد‘ ہٹ دھرمی کی سیاست کرکے آپ اپنی بہترین مقبولیت کا منفی استعمال کر رہے ہیں۔ ملک کی سالمیت و خودمختاری کے ضامن اداروں کے خلاف عوام کو اُکسانے کے شواہد اور واقعات کی ذمہ داری آپ کے سر پر ہے۔ اب ایک صوبے کے وزیراعلٰی نے اسلام آباد پر بھاری مشینری‘ کرینوں اور گاڑیوں کے ساتھ لشکری کشی کی اور انہیں روکنے کے لئے حکومت کو قومی شاہراہوں پر خندقیں کھودنی پڑیں۔ مبینہ طور پرآپ کی لشکر کشی سے غیر ملکی پکڑے گئے۔ وفاقی دارالحکومت پر لشکرکشی کرکے آپ ملک میں آنے والے سرمایہ کار کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ ملک کو عدم استحکام کا شکار کرکے آپ کونسی حب الوطنی کا ثبوت دے رہے ہیں؟خیبرپختونخواہ کے وزیراعلٰی کا طرز سیاست ان کی اپنی پارٹی کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اطلاعات ہیں کہ ان کے طرز سیاست کے باعث پارٹی کے سنجیدہ لوگ دلبرداشتہ ہیں۔ اگر یہی روش برقرار رکھی گئی تو تحریک استقلال کی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف سے بھی لوگ کنارہ کشی اختیار کرلیں گے۔ اسی لئے تاریخی حقائق سے سبق سیکھیں اور اپنی عوامی مقبولیت کو غلط طرز سیاست سے ضائع کرنے کے بجائے اسے مثبت طور پر ملک کی بہتری اور جمہوریت کی مضبوطی کے لئے استعمال کریں۔ جلسے کریں‘ لشکر کشی نہ کریں۔
خیبرپختونخواہ کے وزیراعلٰی اپنے صوبے میں رہ کر اپنی جماعت کی کارکردگی کو بہتر بنائیں اور اپنے صوبے کے چپے چپے میں عوام کو اپنی جماعت سے ایسا مطمئن کریں کہ آئندہ الیکشن میں وہ ان کی جماعت کو ووٹ دیں۔ پنجاب میں پارٹی کے عہدیدار موجود ہیں اور وہاں بھی ہر شہر میں لاکھوں کی آبادی ہے۔ جب تحریک انصاف لاہور میں جلسے کا اعلان کرے تو کیا ضرورت ہے کہ آپ کوہاٹ سے عوام کو اس جلسے میں لے جائیں؟ لاہور کے عوام میں سے جس کسی نے شرکت کرنی ہوگی وہ جلسہ گاہ آجائیں گے۔ سڑکیں بند کرنے کی سیاست کرنے کے بجائے ملک کو سرمایہ کاری کے لئے موزوں ثابت کرنے کی سیاست کریں۔ 

ای پیپر دی نیشن