آئی ایم ایف کے سا تھ وعدہ خلافی کی وجہ سے عمران خان آنے والی حکومت کے راستے میں ایسے کانٹے بکھیرکر گئے تھے کہ جن کو چُننے کیلئے موجودہ حکومت کو بہت زیادہ محنت کرنا پڑی۔پاکستانی قوم کو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی معاشی ٹیم کی شب و روز کی انتھک محنت اور بھاگ دوڑ کے باعث آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے ایک ہفتہ قبل پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی منظوری دے دی ہے۔ سات ارب ڈالرز کے اِس قرض پروگرام کے لیے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان رواں برس جولائی میں سٹاف لیول معاہدہ ہوا تھا جس کی منظوری گذشتہ ہفتے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے دے دی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اس قرض پروگرام کی منظوری پر ’قدرے اطمینان کا اظہار‘ کیا اور کہا کہ ’اللہ کے فضل و کرم سے معاشی اصلاحات کا نفاذ تیزی سے جاری ہے.‘ انہوں نے آئی ایم ایف پیکیج کے حوالے سے معاونت فراہم کرنے والے دوست ممالک باالخصوص سعودی عرب، چین ،قطر اور متحدہ عرب امارات کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ہم پاکستان کے معاشی استحکام کے بعداب معاشی ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے بھی یونہی محنت جاری رکھیں گے۔ پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری میں اضافہ خوش آئند اور معاشی ٹیم کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا ’اگر یونہی محنت جاری رہی تو انشا اللہ یہ پاکستان کا آخری آئی ایم ا یف پروگرام ہو گا۔
قرض کی منظوری کے بعد پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کی پہلی قسط آئی ایم ایف سے موصول ہو چکی ہے جبکہ بقیہ لگ بھگ 5.9 ارب ڈالرز آئندہ تین سال میں پاکستان کو مختلف اقساط میں دیئے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر ر کرسٹالینا جیورجیوا کا ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے بعد کہنا تھا کہ میں حکومتِ پاکستان اور پاکستان کے عوام کو مبارکباد دیتی ہوں۔‘ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ پاکستان نے جو معاشی اصلاحات کی ہیں ، ان کی بدولت معیشت میں بہتری آئی ہے۔ پاکستان نے مثبت اصلاحات کی ہیں اور اب پیداوار کا گراف تیزی سے اُوپر کی جانب جا رہا ہے جبکہ افراط ِ زر نیچے آ رہی ہے اور ملکی معیشت استحکام و ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اس قرض کے حصول کے لیے طے پانے والے سٹاف لیول معاہدے سے قبل پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے عائد کردہ سخت ترین شرائط کو پورا کرنے کی کوشش کی جس کے تحت رواں مالی سال میں ٹیکس آمدن بڑھانے، مختلف شعبوں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے اور نئے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے جیسے اقدامات شامل تھے۔آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے اس نئے قرض پروگرام کی منظوری کے بعد اس کے پاکستانی معیشت اور سرما یہ کاری کی صورتحال پر اثرات کو ماہرین معیشت ’مثبت‘ قرار دیتے ہیں۔وزارت خزانہ کے سابق مشیر اور ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں کہ بے شک اس پروگرام کی منظوری سے پاکستان کی معیشت میں استحکام آئے گا جبکہ پاکستان کی موجودہ مالی سال میں 26 ارب ڈالر کی جو بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہے ، اس سلسلے میں بھی کافی مدد ملے گی۔ انھوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ یہ ملک کی معیشت کے لیے گنجائش پید ا کرے گا کہ ہم اپنے سٹرکچرل مسائل کو حل کر سکیں جو ملکی معیشت کو لاحق ہیں۔
آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے فوراً بعد سب سے پہلے مارکیٹ میں مثبت رجحانات جنم لیں گے، جو کہ گذشتہ کافی عرصے سے ناپید تھے۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پیسے ملنے کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہو گا اور سٹیٹ بینک کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر مارچ 2025ء تک 11 ارب ڈالرز اور جون 2025ء تک 13 ارب ڈالر تک اوپر چلے جائیں گے۔ اس پروگرام کی منظوری کے بعد پیسے آنے سے سب سے پہلے پاکستان کے بیرونی ادائیگیوں کے شعبے پر دبائو کم ہو گا اور ملک کے پاس سرمائے کے ذخائر کی وجہ سے داخلی طور پر مقامی بینکوں سے قرضے لینے کے سلسلے میں بھی کافی حد تک ریلیف ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کی باقی قسطوں کے لیے شرائط میں کچھ زیادہ سختی کا امکان نہیں ہے کیونکہ نگران دور حکومت میں بہت ساری شرائط پر عمل ہو چکا ہے اور اب اس کا امکان کم ہے کہ اگلی قسطوں کے لیے بہت زیادہ سخت شرائط عائد ہوں۔
گذشتہ سال مئی میں ملک میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی، تاہم اس کے بعد مہنگائی بڑھنے کی رفتار میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے اور رواں برس اگست کے مہینے کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اب ملک میں مہنگائی9 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ اگر حکومتی معاشی پالیسیاں اسی طرح ہی اور اسی رفتار سے بھی چلتی رہیں اور معیشت سست روی سے ہی سہی ، مگر آگے کی جانب گامزن رہی تو مستقبل میں یقیناً اس کا فائدہ عام آدمی کو ہی ہو گا۔
روپے کی قدر مستحکم ہونے سے مرکزی بینک اور مانیٹری محاذ پر مدد ملے گی جس سے شرح سود میں کمی واقع ہو سکتی ہے ، جو کاروبار کو چلانے کے لیے سود مند ہو گی اور لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتی ہے۔کیونکہ کسی بھی ملک میں آنے والے معاشی استحکام کا اثر براہ راست ایک عام آدمی پر بھی ہوتا ہے۔ یہ معاشی استحکام ہی ہے کہ افراط زرکی جو شرح 38 فیصد تک چلی گئی تھی، وہ اب 9.6 فیصد تک آ گئی ہے۔ اب امید ہے کہ رواں برس عام آدمی کی قوت خرید بہتر ہو گی اور قیمتوں کے بڑھنے کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔ ان کے مطابق روپے کی قدر میں بہتری سے درآمدی افراط زر میں کمی واقع ہوئی ہے، جس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک واضح کمی نظر آئی ہے۔ اِس کے علاوہ شرح سود میں کمی کی گنجائش پیدا ہوئی ، جس کے باعث مرکزی بینک نے اسے ساڑھے سترہ فیصد تک کر دیا ہے، ابھی بھی اس میں کمی کی گنجائش ہے، جس سے صنعتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور سرمایہ کاری اور عام آدمیوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور یقیناًغربت اور مہنگائی میں کمی آئے گی۔
یہ نکتہ ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ قومی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لئے حکومت کو فوج کی مکمل معاونت حاصل ہے او ر آئی ایم ایف کے حالیہ پیکیج کی منظوری کے لئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا بھرپور ساتھ دیا ۔