ہم سب اپنا سارا وقت سستے داموں بیچ رہے ہیں۔ ہر شخص اس مادی تجارت میں اس طرح غرق ہو گیا ہے کہ زندگی کے اصول ضابطوں پر مشتمل ایک قانون کی کتاب پڑھنے کا وقت ہی نہیں رہا۔ جب ہر شخص قانون کی خلاف ورزی پر تُلا ہوا تو پھر زندگی باضابطہ کیسے گزر سکتی ہے اور ضابطے کے بغیر زندگی میں کیسے خوشی ، خوشحالی اور سکون آسکتا ہے۔ قرآن نے کہا ہے کہ قرآن جو علوم کا موخزن ہے اس میں ہم نے انسان کے تمام معاملات کی باریکیوں کی اطلاع کردی ہے۔ طب اقسام اور طب قلوب کا تشفی نجس جواب و علوم سمجھا رہے ہیں اور کوئی چیز بھی اٹھا نہیں رکھی ہم نے قرآن کو دفعتاً نہیں اُتارا ۔ تھوڑا تھوڑا کرکے بھیجا ہے تاکہ انسان ترو تازہ اور بار بار نصیحت حاصل کرتا رہے۔ اپنا وقت بیچ کھانے والے تاجروں کے لیے آج میںنے بہت محنت سے قرآنی نصاب کا گیس پیپر تیار کیا ہے۔ شاید اس طرح قرآن حکیم کو اپنی زندگیوںمیں داخل کرنے میں آسانی ہو جائے کیونکہ ہم سب غبی طالب علم رٹا لگا کر پاس ہونے کے عادی ہیں ۔ قرآن کو بھی ہم نے صرف رٹا لگانے کی کتاب سمجھا ہے اور رٹا لگانے والے طالب علم اکثر فیل ہو جاتے ہیں۔ اور ہم بھی فیل ہوگئے ہیں ۔ کچھ تو طالب علموں کا قصور ہے اور کچھ ان کے اساتذہ بھی قابلِ گرفت ہیں۔ ان اساتذہ (علمائے دین) نے اپنی علمیت اور قابلیت کا رعب جمانے کے لیے ایک عام فہم اور آسان نصاب (قرآنِ حکیم) کو طالب علموں کو اس طرح مشکل اور پیچیدہ کرکے پڑھایا ہے کہ طلباء نہ صرف بے زار ہو گئے ہیں بلکہ فیل ہوگئے ہیں۔ اور وہ اپنے فیل ہونے پر شرمندہ بھی نہیں ہیں۔ میں نے قرآن مجید سے وہ نقطے چن چن کر لکھے ہیں جو مختصر ہونے کی وجہ سے بہت آسانی سے لوح زندگی پر لکھے جا سکتے ہیں۔ اور اگر ایک انسان صبح زندگی سے وابستہ معاملات کو شروع کرنے سے پہلے اس تختی پر ایک سر سری نظر بھی ڈال لے گا تو سارا وقت نظم و ضبط میں آجائے گا۔ جیسا قرآن میں کہا ہے کہ ہم نے انسان کے لیے کائناتی ساخت ترتیب کو اس کے لیے ٹھیک ٹھیک مرتب کیا ہے۔ ہم نے انسان کے لیے اوقات کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ سورج جب اپنی دسترس میں آئے۔ وقت کو روشن کر دیتا ہے تو تمام کائناتی مخلوق کے سامنے کام کاج کے سارے راستے روشن ہو جاتے ہیں۔ پھر اس روشن وقت کو ہم اپنے حکم سے رات کی تاریکی میں لپیٹ دیتے ہیں تاکہ کسی کو کچھ نظر نہ آئے اور وہ کچھ نہ کر سکے اور آرام کرے‘‘ہم انسانوں نے خدا کے ان احکامات کی خلاف ورزی کرکے مصنوعی روشنیوں سے رات کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ کام کاج کے راستے روشن کرکے کام میں جُت گئے اور جسمانی ساخت کے مطابق جسم کو آرام دینے کا جو حصہ مقرر تھا اسے پائوں تلے روند ڈالا اور پھر صرف جسمانی نہیں روحانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوگئے ۔ قرآن نے انسان سے وابستہ اس کے سارے معاملات کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے۔ کھانے پینے اُٹھنے بیٹھنے ، سونے جاگنے سمیت سب اصول وضاحت اور قواعد کے ساتھ بیان کئے ہیں ۔ ان اصولوں کی پاسداری انسان کو ہر قسم کی سند عطا کرتی ہے اور خاندانی معاشرتی، معاشی اور صحت مندی کے سنوار کی ضامن ہے۔ اب میں قرآن مجید میں سے جو آہن اور قانون کی ایک مصدقہ کتاب ہے ،کچھ اقتسابات شقوں کی صورت میں الگ الگ نمبر وار لکھوں گی۔ (شاید یہ سلسلہ قسط وار اگلے کالموں میں بھی جاری رکھوں) تاکہ انہیں پڑھنے سمجھنے اور عمل کرنے میں آسانی اور دلچسپی برقرار رہے۔
1۔اور ہماری بھیجی ہوئی کتاب تمہارے لیے امامِ رحمت ہے (القرآن)
2۔ اور اللہ کی تصدیق یہی کافی ہے کہ اس کے ذکر سے دل کو سکون ملتا ہے اور انسان کو اپنی نیک انجامی کا یقین ہو جاتا ہے۔ (القرآن)
3۔جب ایمان کا مل اور امید ودین کے ساتھ ہمارے بندے ہم سے کچھ مانگتے ہیں تو ہم وقت اور حالات کو بے بنیاد کر دیتے ہیں۔ جیسے حضرت زکریا نے کہا تھا کہ ’’رب لا تزرتی فرداً ان خیر الوارثین ‘‘ یعنی اے اللہ مجھے میرا وارث عطا کر ۔ اور ہم نے بوڑھے زکریا اور ان کی بانجھ زوجہ کو وارث عطا کر دیا۔ (القرآن)
4۔انسان کی صرف نری کھری عبادت ہی اس کی دعا قبول کرواتی ہے (القرآن)
5۔ہم نے کائنات کی ہر چیز کو انسان کی خدمت پر لگا دیا ہے۔ سورج ، چاند ، زمین ، آسمان اور درخت مگر اس کی اجرت ہم خود ادا کرتے ہیں۔ (القرآن)
6۔اگر مال و دولت کی اہمیت اور منزلت ہوتی تو ہم اپنے پیغمبروں کوتونگر رکھتے ۔ انسان کی حاجت کی تاخیر میں ہماری مصلحت اور حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ (القرآن)
7۔نفسانی خواہشات کے تابعدار نہ ہو ایسا انسان اس کتے کی طرح ہو جاتا ہے جو کھا لینے سے پہلے بھی اور کھا لینے کے بعد بھی زبان باہر رکھے رہتا ہے۔ (القرآن)
8۔ہم جن بندوں کو نیک اعمال کے بدلے چین اور سکون عطا کرتے ہیں ان کی عمر بھی بڑھا دیتے ہیں۔ (القرآن)
9۔’’لاتکلف نفسا الا وسعا ہا ‘‘ ہم اپنے کسی بندے پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں رکھتے ۔ (القرآن)
10۔انصاف اور حق کے ساتھ وزن کو ٹھیک ٹھیک تولو ورنہ خسارے میں رہو گے۔ اور یہ خسارہ وزن کی کمی سے زیادہ ہو گا۔ (القرآن)
11۔اگر تمہارا کوئی قرض دار ہے تو اسے خوشحالی تک مہلت دو ۔ ہم تمہاری حق تلفی نہیں ہونے دیں گے۔ تمہارا حق برحق ہوگا۔ (القرآن)
12۔اپنی قُسموں کو سپر نہ بنائو یہ تمہیں سزا سے نہیں بچا سکتی۔ (القرآن)
13۔میں رحیم ہوں اور میری رحمت میرے عقب سے آگے چلتی ہے۔ (القرآن)
14۔اور ہم اپنے اہل ایمان کو مصیبتوں سے بچا بچا لیتے ہیں۔ (القرآن)
15۔رہبانیت اور جائز لذات جو ہمارے دائرہ حکم میں ہوں ہم نے ان سے کنارہ کشی کا کوئی حکم صادر نہیں کیا ۔ (القرآن)
16۔جب تم اپنے نفس کو پامال کرکے رات کے پچھلے پہر ہمیں یاد کرتے ہو اور ٹوٹ کر پکارتے ہو تو ہم تمہارے بہت قریب آکر تمہیں سنتے ہیں اور تم پر اپنا ابر رحمت کھڑا رکھتے ہیں۔ اور مصیبتوں میں سینے کی طاقت عطا کر دیتے ہیں ۔ (القرآن)
17۔حاکم کے لیے ضروری ہے کہ اپنے لوگوں کے مقابلے میں بڑھ چڑھ کر زندگی نہ گزارے جیسے فرعون نے کیا تھا۔ پھر ہم نے اسے الٹ کر نقش عبرت بنا دیا۔
18۔بدی کا دفعیہ نرم برتائو سے کرو ذات کا بدلہ نہ لو بس ہمارے حوالے کر دو ہم معاملات پر قدرت رکھتے ہیں۔ (القرآن)
19۔حرام اگر کثیر بھی ہو تو اس میں برکت نہیں ہوتی ۔ حلال اگر قلیل بھی ہو توہماری رضا سے اس میں برکت آجاتی ہے۔ (القرآن)
20۔یاد رکھو تمہارا مال کبھی سود سے نہیں پھلتا پھولتا ۔ (القرآن)
21۔اور جو ہماری راہ میں چھپا کر دوسرے مستحق کی مدد کرے گا وہ یقینا ایسے کاروبار کا آسرا رکھے جن کی خدا بھر پور مزدوریاں عطا کرے گا۔ اور اپنے فعل بڑھا کر دے گا کیونکہ وہ قدر دان ہے ۔ (القرآن)
22۔کوفت اور رنج ایک بیماری ہے جو ہم اپنے بد اعمال انسانوں پر برجستہ نازل کر دیتے ہیں اور بڑھاپے میں اسے اُلٹ کر دوبارہ بچہ بنا دیتے ہیں۔ بے بس اور کمزور تاکہ جوان اپنے بڑھاپے کی کیفیت کو روبرو رکھے اور نصیحت لے ۔ (القرآن)
23۔ہم پاس میں کوئی توبہ قبول نہیں کرتے سزا کے خوف سے کی ہوئی توبہ قابل قبول ہے۔ (القرآن)
24۔صبر کرنے والے سچ بولنے والے خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے ، سچی گواہی دینے والے ، عدل پر قائم رہنے والے اور قول و اعمال ٹھیک ٹھیک بھگتنے والوں سے کہہ دو محمد ﷺ میں ان کے پاس ہوں ان کے ساتھ ہوں۔ (القرآن)
25۔اے محمد ﷺ انسانوں سے کہہ دو کہ جب وہ ہمارے احکام کو جاننے کے باوجود انجانے بن کر گناہ کرتے ہیں تو پھر رنج و کوفت اور بیماری ہم ان کا اوڑھنا بچھونا بنا دیتے ہیں۔ (القرآن)
26۔کسی بھی انسان کے عمل اور نیکی کی وجہ سے ہم اس کے لیے بدی اور ایذا کا خود دفعیہ کرتے ہیں۔ (القرآن)
27۔اچھے حاکم کی حکومت میں ہم غیب کی امداد شامل کر دیتے ہیں۔ (القرآن)
28۔جب ہم کسی بندے کو خاص بنانے کا ارادہ باندھتے ہیں تو اس کی زندگی کے تمام حالات کو ضامن بنا دیتے ہیں اور پھر اچانک اس بندے کو اس کے خاص ہونے کی نوید سنا دیتے ہیں۔
29۔ہم نے اپنی کتاب میں طرز حکومت کی پوری تفصیل سمجھا دی ہے۔ وقت کے حکمران ان سے رو گردانی کریں گے تو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کے لیے رنج و ایذا ہوگی۔ (القرآن)
’’قرآنی نصاب کے چند الفاظ لوحِ زندگی کے لیے‘‘
Oct 10, 2024