خیبر پی کے اسمبلی میں فری سٹائل دنگل، لاتوں گھونسوں کا آزادانہ استعمال۔
گزشتہ روز خیبر پی کے اسمبلی میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی لاتوں گھونسوں کا بھرپور استعما ل ہوا، اس موقع پر بھی دیکھ لیں وزیر اعلیٰ کیسے چشم زدن میں منظر سے غائب ہو گئے۔ حالانکہ بلوہ شروع ہی اس بات پر ہوا کہ سپیکر نے جانبداری سے کام لیتے ہوئے وزیراعلیٰ کو مائک دیا اور اپوزیشن کو بولنے کے حق سے محروم رکھا۔ پھر اس کے بعد جو ہوا لکھتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ساری اسمبلیوں میں اب یہ کیسے لوگ آ گئے ہیں۔ تہذیب ، شائستگی ، صبر و تحمل ان کو چْھو کر بھی نہیں گزرا۔ پی ٹی آئی والوں سے یہی شکایت عام ہے کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر مشتعل ہو کر اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ گالی گلوچ، مار کٹائی پر اْتر آتے ہیں۔ جوابی ایکشن اگر بھرپور ہو تو پھر گڑ گڑاتے ،معافیاں مانگتے ہیں۔ یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ خیبر پی کے میں سپیکر کو بہرحال اپوزیشن کا بھی حق ادا کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ جب ایک رکن اسمبلی اقبال وزیر نے حکومتی رکن اسمبلی نیک محمد پر کرپشن کا الزام لگایا تو بات بہت بڑھ گئی اور دونوں کے حامی بھی میدان میں آ گئے۔یوں اپوزیشن بمقابلہ حکومت کے میچ میں پی ٹی آئی پارلمنٹیرین اور پی ٹی آئی ارکان کی انٹری سے بات باہمی دست و گریباں سے آگے بڑھ کر مارکٹائی تک جا پہنچی۔ اس تمام دھینگامشتی میں سارجنٹ ایٹ آرمز نے کافی تاخیر سے آ کر بیچ بچائو کرایا۔ شاید وہ وزیر اعلیٰ کو باحفاظت باہر لے جانے پر مامور تھے۔ اس ساری صورتحال میں سپیکر نے اجلاس ملتوی کرنے میں ہی خیریت جانی۔ مگر یہ سارا کھیل مفت میں پورے ملک نے گھر بیٹھے ٹی وی سکرینوں پر دیکھا۔ مگر جن اسمبلی ممبران نے براہِ راست یہ فری سٹائل دنگل براہِ راست دیکھا ان کا تو خون سیروں بڑھ گیا ہو گا۔ یوں لگ رہا تھا۔ مارشل آرٹ کا مقابلہ چل رہا ہے۔
غریب بچیوں کی شادی کیلئے مالی مدد کے ساتھ شادی بھی سادگی سے کرنے پر عمل کرایا جائے۔
غیر اسلامی رسوم و رواج اور ہندوانہ طور طریقوں کی نقالی نے ہمارے نکاح یعنی شا دی کی تقریب کو ایک مہنگا ایونٹ بنا دیا ہے۔ طرح طرح کی تقریبات پر اٹھنے والے اخراجات غریب والدین کی کمر توڑ دیتے ہیں۔ ان بھاری اخراجات کی وجہ سے لاکھوں لڑکیاں اور لڑکے شادی سے محروم رہ جاتی ہیں۔ کیونکہ ان کے والدین یہ اخراجات اْٹھا نہیں سکتے۔ جہیز کی لعنت علیحدہ راتوں کی نیند اْڑائے رکھتی ہے۔ بارات کا کھانا الگ ہوتا ہے۔ جسے نبی رحمت نے ناپسندیدہ بدترین کھانا قرار دیا ہے۔ زیور، کپڑے، فرنیچر گھریلو سامان لڑکی والے قرضہ لے کر پورا کرتے ہیں یوں لگتا ہے لڑکے والوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے وہ لڑکی کے سامان سے اپنا گھر بھرنا چاہتے ہیں۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب نے جو خود بھی ایک خاتون ہیں لڑکی والوں کی اسی پریشانی کا ادراک کرتے ہوئے جو پروگرام پیش کیا ہے وہ غریب والدین کے لیے ایک ڈھارس بنے گا۔ غریب بچیوں کی شادی پر انہیں حکومت پنجاب کی طرف سے ایک لاکھ روپے نقدی، مناسب فرنیچر اور گھریلو سامان بھی دیا جائے گا۔ یوں ان کی تھوڑی بہت مدد ہو جائے گی۔ کیا ہی اچھا ہو اگر حکومت سختی سے نکاح کی تقریب مسجد یا عدالت میں منعقد کرے۔ جس کے بعد صرف بوتل اور مٹھائی پیش کی جائے۔ بارات کا تصور ختم ہو اور لڑکے والے ولیمہ کی سنت ادا کر کے یہ شادی کا عمل مکمل کریں۔ جہیز بہت مختصر ہو چاہے کوئی صاحب حیثیت ہی کیوں نہ ہو۔ وہ بھی قانون پر عمل کرے تاکہ کوئی امارات کا دکھاوا نہ کر سکے۔ اس کی نسبت لڑکیوں کو وراثت میں پورا اسلامی حق ادا کرنا لازمی کیا جائے۔ بہتر یہ بھی ہو گا کہ حق مہر بھی مناسب رکھا جائے۔ اعتدال کی راہ نکالی جائے تاکہ غریب بچیوں کے گھر آباد ہوں۔ اس وقت لاکھوں بچیاں والدین ، مالی استعداد نہ ہونے کی وجہ سے گھر کی دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔
جہادی قوتیں اسرائیل کے خلاف لڑنے فلسطین جائیں۔ ایمل ولی خان
اے این پی کے سربراہ نے چاہے یہ بات اپنا پرانا غصہ نکالتے ہوئے کی ہو گی۔کیونکہ ان کی جماعت ان. جماعتوں کے خلاف رہی ہے۔ مگر بات تو وزنی ہے۔ ویسے بھی آج کل ان تنظیموں کا کاروبار ماٹھا ہی ہے۔ اگر ان سب جہادی تحریکیوں کے مجاہدین فلسطین جا کر وہاں اسرائیل کے خلاف جہاد کریں تو جلد ہی اس فتنہ پرور ملک کے مظالم سے فلسطینیوں اور لبنان والوں کو نجات مل جائے گی۔ اب خدا جانے جے یو آئی اور جماعت اسلامی والے اس بارے میں کیا کہتے ہیں کیونکہ وہ جہادیوں کے سب سے بڑے حامی رہے ہیں۔ فلسطین کے حق میں بھی آگے بڑھ کر بولتے ہیں تو بس اب باتیں چھوڑیں اور عملی کارروائی کریں۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہونے کا۔ وہ جانتے ہیں اگر جہادی نہ رہے تو جہاد کے نام پر مال کون دے گا۔ جن جہادیوں کی مدد کیلئے ہم پاکستانیوں نے اپنا حال بے حال کر دیا۔ آج وہی افغانستان والے یہ جہادی اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ داعش اور القاعدہ کے کچھ حصہ ابھی تک پاکستان میں سرگرم ہیں۔ یہ تو الْٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہے۔ جبکہ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا یہی کہہ رہی ہے کہ داعش، القاعدہ ، تحریک طالبان کے ابھی تک افغانستان میں محفوظ ٹھکانے ہیں جہاں سے وہ پاکستان پر حملے کرتے ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ مگر افغانستان اْلٹا پاکستان کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کر کے دنیا میں اسے بدنام کر رہا ہے۔ دنیا والے سب جانتے ہیں کہ کون کیا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ اب جہادی جماعتوں کے قائدین کو ایمل ولی خان کے مشورے پر غور کرنا چاہیے۔ لوہا گرم ہے اور جہادی وہاں جا کر اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیں گے اور افغانستان کی طرح یہاں بھی کامیابی حاصل کریں۔ مگر یہ ممکن نہیں لگتا کیوں کہ افغانستان میں ان کو امریکہ ، یورپی دنیا اور مسلم ممالک کی بھرپور مالی و عسکری حمایت حاصل تھی۔ اب ایسا کچھ نہیں آج کل یہ ساری حمایت اسرائیل کو حاصل ہے۔ جو ان ممالک کا منظور نظر ہے۔
خیرپور میں پسند کی شادی سے انکار پر خاندان کے 13 افراد قتل
مشتری ہوشیار باش، آج تک روایت تھی کہ پسند کی شادی کا کہنے پر لڑکی کو مار دیا جاتا تھا۔ اسے غیرت کے نام پر قتل کرنا ہی بہتر سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب لگتا ہے دیگر روایات کی طرح یہ روایت بھی بدل رہی ہے۔ خیرپور سندھ میں اگست کے مہینے میں ایک لڑکی نے پسند کی شادی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے پر اپنے والدین اور 8 بہن بھائیوں کو زہر دے کر مار دیا۔ کیا اسے خیال تک نہیں آیا کہ وہ اپنوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہی ہے۔ کیا اسے کبھی زندگی میں خوشی نصیب ہو گی۔ صرف یہی نہیں مرنے والوں میں لڑکے کا والد اور اس کے دو بھائی بھی شامل ہیں۔ یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس نے علاقے کے مکینوں اور انتظامیہ کو ہلا دیا۔ اب تحقیقات کے بعد پتہ چلا ہے کہ لڑکی نے لڑکے کے ساتھ مل کر سب کو زہر دے کر مارا تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ سچ کہتے ہیں عشق کا بھوت جب سر پر چڑھتا ہے تو آنکھوں پر ہوس کی پٹی چڑھا دیتا ہے۔ عاشق و معشوق کو کچھ نظر نہیں آتا۔ صرف ’’من و تو‘‘ ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ اسی لیے ایسے سانحات جنم لیتے ہیں۔ والدین بھی اگر تھوڑا تحمل سے کام لیں۔ لڑکی اور لڑکے کی پسند پر غور کریں تو شاید ا یسے سانحات سے بچا جا سکتا ہے۔ مگر وہی ذات پات، برادری ، اونچ نیچ، غربت و امارت سب سے بڑھ کر اپنی پسند و ناپسند کی وجہ سے اکثر جان بوجھ کر انجانے میں والدین بھی اپنی اولاد کی خوشیوں کا خون کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ہمارا دین بھی بچوں سے پوچھنے کا حق دیتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں۔ غیرت کے نام پر کاروکاری کے نام پر ایسی کئی لڑکیاں اور لڑکے مار دئیے جاتے ہیں۔ یا وہ خودکشی کر نے پر مجبور ہو جاتے ہیں، کہ انہوں نے اپنی پسند کا اظہار کیوں کیا۔اب جو نیا ٹرینڈ سامنے آیا ہے۔ یہ تو خاصہ خطرناک ہے اور اس سے معاشرے میں انارکی پھیل سکتی ہے۔ اب یہ پریمی جوڑا پولیس کی حراست میں ہے اورجن ہاتھوں میں مہندی لگنی تھی ان میں ہتھکڑی لگی ہے، جس ماتھے پر سہرا سجنا تھا اس پر پھانسی کے پھندے کا سایہ پڑ رہا ہے۔