کٹھ پتلی اسمبلی کے انتخابی نتائج میں مودی سرکار کے لئے ہزیمت 


مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے نام نہاد انتخابات میں حکمران بی جے پی کو بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگست 2019ء میں علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات میں حکمران بی جے پی کو بری طرح مسترد کر کے کشمیری عوام نے بھارت کو یہ ٹھوس پیغام دیا ہے کہ انہیں بھارتی تسلط سے اپنی آزادی کے سوا کچھ بھی قبول نہیں۔ مودی سرکار نے کٹھ پتلی اسمبلی کے انتخابات میں اپنی کامیابی کے لئے ہر قسم کا ہتھکنڈہ اور سرکاری مشینری کا استعمال کیا/ اس کے باوجود وہ کشمیری عوام کو بی جے پی کے لئے ووٹ ڈالنے پر قائل نہیں کر سکی۔ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا پراسس 18 ستمبر کو شروع ہوا تھا جو یکم اکتوبر کو تین مراحل میں مکمل ہوا۔ ابھی تک گنتی کا عمل جاری ہے تاہم اب تک جو نتائج سامنے آئے ہیں، اس کے مطابق مجموعی 90 نشستوں میں سے بی جے پی کو صرف 28 نشستیں حاصل ہوئی ہیں جبکہ اس کے مقابل کانگرس کے انتخابی اتحاد کو 51 نشستیں ملی ہیں اور یہ اتحاد مقبوضہ کشمیر میں حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔ اس اتحاد میں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی شامل ہے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ اپنی آزادی کی جدوجہد میں لاکھوں انسانی جانوں کی قربانی دینے والے کشمیری عوام نے آج تک مقبوضہ وادی میں نہ بھارتی تسلط قبول کیا ہے نہ کٹھ پتلی اسمبلی کو تسلیم کیا ہے۔ وہاں انتخابات سنگینوں کے سائے میں ہوتے ہیں اور کشمیری عوام ان انتخابات کا عملاً بائیکاٹ کیا کرتے ہیں چنانچہ ان انتخابات میں ووٹوں کی شرح بالعموم پانچ سے 8 فیصد تک ہی رہی ہے۔ حالیہ انتخابات میں ووٹوں کا تناسب بڑھانا مودی سرکار کے لئے اس لئے بھی ضروری تھا کہ وہ کشمیری عوام کے حق رائے دہی کے معاملہ میں دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اور مقبوضہ وادی کو بھارت میں ضم کرنے کے اپنے اقدام کو تسلیم کرانا چاہتی ہے تاہم کشمیری عوام نے بی جے پی کو مسترد کر کے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کا کشمیر سے کوئی لینا دینا نہیں، کشمیری عوام کو خودمختاری نہیں، مکمل آزادی چاہیے۔ مقبوضہ وادی کی کٹھ پتلی اسمبلی کے یہ انتخابی نتائج یقینا دنیا کو کشمیر کی آزادی کا ٹھوس پیغام دیں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن