برطانوی فلسفی ’’جان لاک‘‘ (John Locke 1620 ء تا 1704ئ) پہلا شخص ہے جس نے لبرلزم کو باقاعدہ ایک فلسفہ اور طرز فکر کی شکل دی یہ شخص عیسائیت کے مروجہ عقیدے کو نہیں مانتا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ بنی نوع انسان کو آدم کے اس گناہ کی سزا ایک منصف خدا کیونکر دے سکتا ہے جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔ عیسائیت کے ایسے عقائد سے اس کی آزادی اسکی ساری فکر پر غالب آ گئی اور خدا اور مذہب پیچھے رہ گئے۔ انقلابِ فرانس کے فکری رہنما ’’والٹیئر Voltaire (1694 ء تا 1778ئ) اور روسو Rousseau (1712ء تا 1778ئ) اگرچہ رسمی طور پر عیسائی تھے فکری طور پر جان لاک سے متاثر تھے انہی لوگوں کی فکر کی روشنی میں انقلاب فرانس کے بعد فرانس کے قوانین میں مذہبی اقدار سے آزادی کے اختیار کو قانونی تحفظ دیا گیا اور اسے ریاستی امور کی صورت گری کیلئے بنیاد بنا دیا گیا۔ امریکہ کے اعلانِ آزادی (American Declaration of independence) میں بھی شخصی آزادی کی ضمانت جان لاک کی فکر سے متاثر ہو کر دی گئی ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا‘ وکی پیڈیااور آکسفورڈ ڈکشنری)
سیکرلرزم: یہ لفظ قدیم لاطینی لفظ ’’سیکولارس‘‘ (Saecularis) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ’’وقت کے اندر محدود‘‘ عیسائی عقیدے کیمطابق خدا کی ذات وقت کی قید اور حدود سے آزاد اور ماورا ہے۔ تحریک احیائے علوم کے دوران یورپ میں جب عیسائیت کی تعلیمات سے بیزاری پیدا ہوئی اور خدا کے انسانی زندگی میں دخل (جوکہ اصل میں عیسائی پادریوں اور مذہبی رہنمائوں کی خدا کی طرف سے انسانی زندگی میں مداخلت کی غیرضروری‘ غیرمنطقی‘ من مانی اور متشددانہ توجیہہ تھی ورنہ اگر عیسائیت کی تعلیمات وہی ہوتیں جو حضرت عیسیٰؑ نے دی تھیں تو خدا کیخلاف بغاوت پیدا نہ ہوتی) بغاوت پیدا ہوئی تو کہا جانے لگا کہ چونکہ خدا وقت کی حدود سے ماورا ہے اور انسان وقت کی حدود سے مقید ہے لہٰذا انسانی زندگی کو سیکولر یعنی خدا سے جدا (محدود) ہونا چاہئے۔
’’اس لفظ کو باقاعدہ اصطلاح کی شکل میں 1846ء میں متعارف کروانیوالا پہلا شخص برطانوی مصنف جارج جیکب ہولیوک (George Jacob Holyoake 1817 ء تا 1906ئ) تھا اس شخص نے ایک بار ایک لیکچر کے دوران کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے عیسائی مذہب اور اس سے متعلق تعلیمات کا توہین آمیز انداز میں مذاق اڑایا جس کی پاداش میں اسے چھ ماہ جیل کی سزا بھگتنا پڑی۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد اس نے مذہب سے متعلق اظہارِ خیال کیلئے اپنا انداز تبدیل کرلیا اور جارحانہ انداز کی بجائے نسبتاً نرم لفظ ’’سیکولرزم‘‘ کا پرچار شروع کر دیا‘‘ (انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا اور وکی پیڈیا) اس اصطلاح کے عام ہو جانے کے بعد پہلے برطانیہ اور پھر تمام یورپ اور دنیا بھر میں سیکولرزم کے معنی یہ ہوئے ’’انسانی زندگی کے دنیا سے متعلق امور کا تعلق خدا مذہب سے نہیں ہوتا‘‘ اور مزید یہ کہ ’’حکومتی معاملات کا خدا یا اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘‘ اس اصطلاح کے یہی معنی اب دنیا بھر میں انگریزی زبان کی ہر لغت اور انسائیکلوپیڈیا میں پائے جاتے ہیں اور اسی پر سیکولر کہلانے والے تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔ ’’لبرلزم‘‘ کے مقابلے میں ’’سیکولرزم‘‘ نسبتاً نرم اصطلاح ہے۔
انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کیمطابق ’’یورپ کے ازمنہ وسطیٰ میں مذہبی لوگوں میں یہ رجحان طاقت پکڑ گیا تھا کہ وہ انسانوں کی فلاح وبہبود سے متعلق دنیاوی امور کو نظر انداز کرتے تھے اور لوگوں کو خدا سے تعلق جوڑنے کی اور ترکِ دنیا کی تعلیم دیتے تھے۔ اس رجحان کیخلاف ردعمل پیدا ہوا اور یورپ کی تحریک احیائے علوم کے دوران سیکولرزم نمایاں ہوا اور لوگوں نے تمدنی ترقی میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کی‘‘۔
آکسفورڈ ڈکشنری کیمطابق اول یہ کہ ’’سیکولرزم سے مراد یہ عقیدہ ہے کہ مذہب اور مذہبی خیالات وتصورات کو ارادتاً دنیاوی امور سے حذف کر دیا جائے۔ اسکی یورپی فلسفیانہ توجیح یہ ہے کہ یہ ایک ایسا نظامِ عقائد ہے جس میں اخلاقی نظام کی بنیاد کلی طور پر بنی نوع انسان کی دنیا میں فلاح وبہبود اور خدا اور حیات بعد الموت پر ایمان سے انکار (یعنی انکے عقائد سے اخراج) پر رکھی گئی ہے‘‘ دوم یہ کہ ’’ اس بارے میں ایک نقطہ نظریہ ہے کہ تعلیم خصوصاً وہ تعلیم جو عوامی سرمایہ کے طرف سے دی جا رہی ہو‘ مذہبی عقائد اور مذہبی تعلیم کو آگے نہ بڑھائے‘‘۔ ویبسٹر ڈکشنری کیمطابق سیکولرزم کے معنی ہیں ’’دنیاوی امور سے مذہب اور تصورات کا اخراج یا بیدخلی‘‘ ۔
سیکولرزم اور لبرلزم کا پس منظر: ان دو اصطلاحات کو مکمل طور پر جاننے کیلئے ضروری ہے کہ اس ماحول اور ان حالات کا جائزہ لیا جائے جن کے باعث یہ اصطلاحات تشکیل پائیں۔ حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش کے وقت مغربی اور مشرقی یورپ پر بت پرست (مشرک) رومن بادشاہوں کی حکمرانی تھی۔ حضرت عیسیٰ آسمان کی طرف اٹھائے جانے سے قبل دنیا میں تیس یا تینتیس برس رہے وہ بنیادی طور پر بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے رسول تھے تاکہ ان کو توریت کی گمشدہ تعلیمات سے ازسرِ نو آشنا کریں۔ ان ؑکی اصل تعلیمات اس وقت تقریباً ناپید ہیں۔ موجودہ عیسائیت اور اس کے عقائد سینٹ پال کی دین ہیں سینٹ پال‘ پولوس کا اصل نام سائول تھا جو 10 سن عیسوی(؟) میں پیدا ہوا اور تقریباً 67ء (؟) میں فوت ہوا۔
یہ شخص بنیادی طور پر کٹر یہودی تھا یہ کبھی عیسیٰؑ سے نہیں ملا اور انکی زندگی میں ان ؑ کا اور ان ؑ کی تعلیمات کا سخت مخالف تھا اور ان ؑ کو یہودیت کیلئے سخت مضر سمجھتا تھا۔ عیسیٰ ؑکے دنیا سے اٹھا لئے جانے کے بعد یہ شخص عیسائی ہو گیا یہ وہ شخص ہے جس نے لوگوں کے درمیان (اپنے خوابوں اور مکاشفات کے ذریعے) اس عقیدے کو عام کیا کہ ’’یسوع مسیح خدا کے ہاں اسکے نائب کی حیثیت سے موجود ہیں اور قیامت کے روز لوگوں کے درمیان فیصلے وہی کرینگے اور یہ کہ اب نجات اس شخص کو ملے گی جو یسوع مسیحؑ کی خوشنودی حاصل کریگا اور اس کیلئے اب موسوی شریعت کی عملاً پابندی ضروری نہیں بلکہ محض یسوع مسیحؑ کے خدا کے بیٹے اور چہیتے ہونے کا عقیدہ ہی نجات کیلئے کافی ہو گا‘‘ یہی وہ شخص ہے جس نے پہلی بار یہ تعلیم بنی اسرائیل کے علاوہ دوسری اقوام کو دینے کی بھی نصیحت کی۔ (جاری ہے)