لاہور (سروے: رفیعہ ناہید اکرام) حکومتی سطح پر نرسوں کے مسائل کو نظرانداز کرنے کے باعث ہر سال سینکڑوں تربیت یافتہ نرسیں ملک چھوڑ کر دیگر ممالک میں خدمات سرانجام دینے پر مجبور ہیں، ہزاروں نرسیں بے روزگار ہیں یا پرائیویٹ سیکٹر میں معمولی معاوضے پر 12گھنٹے ملازمت پر مجبور ہیں۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے معیار کے مطابق 10مریضوں کی دیکھ بھال کیلئے ایک نرس ہونی چاہئے مگر پاکستان میں 5000مریضوں کی دیکھ بھال کیلئے ایک نرس ہے صرف پنجاب میں نرسوں کی کم از کم 15ہزار نئی آسامیاں پیدا کی جائیں۔ پنجاب نرسنگ ایسوسی ایشن کی ممبران نے ان خیالات کا اظہار نوائے وقت سروے میں کیا۔ جنرل سیکرٹری توصیف خانم نے کہا کہ حکومت صحت کی سہولیات پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے مگر نرسوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ نرسیں جس گریڈ میں ملازمت کا آغاز کرتی ہیں اسی میں ریٹائر ہو جاتی ہے، فیڈرل گورنمنٹ کی طرح پنجاب حکومت بھی نرسوں کا سروس سٹرکچر ریوائز کرے۔ رخسانہ الیاس نے کہاکہ کہ بچے بیمار ہو جائیں تو چھٹی نہیں ملتی، 18سے 24گھنٹے تک کام کے باوجود ”اوور ٹائم“ ملنے کا کوئی تصور نہیں۔ ڈاکٹروں کی غلطی پر بھی مریضوں کے لواحقین نرسوں پر غصہ اتارتے ہیں۔ 45سال کی عمر کے بعد نرسوں کی نائٹ ڈیوٹی ختم کی جائے، راحت رانی نے کہاکہ 50فیصد نرسیں ہیپاٹائٹس کی مریض ہیں، ہمیں ہائی رسک الاﺅنس دیا جائے، تنخواہیں کم ہونے کے باعث نرسوں کی اکثریت گھر چلانے کیلئے دو نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ عطیہ نسیم نے کہا کہ ڈاکٹروں کی طویل ہڑتال کے دوران ہسپتال اور مریض ہم نے سنبھالے انکی تنخواہیں بڑھ گئیں مگر ہماری کوئی شنوائی نہیں۔ نویدہ نے کہاکہ نرسوں کیلئے ہاﺅسنگ کالونیاں بنائی جائیں، تنخواہوں میں کم از کم 15ہزار روپے اضافہ کیا جائے۔ فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی پرنسپل اور نرسوں کا سروس سٹرکچر بنانے کیلئے قائم کی گئی کمیٹی کی چیئرپرسن ڈاکٹر رخشندہ طیب نے کہاکہ نرسوں کی خدمات قابل ستائش ہیں۔
سروے