ہماری سوچ اور ہمارے عمل

مکرمی! ہم بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے جا رہے ہیں۔ لوڈشیڈنگ ایک معمول بن گیا ہے ہم لائٹ کے جانے پر اتنا حیران نہیں ہوتے جتنا اس کے آنے سے‘ ہم اپنا ذہن لوڈشیڈنگ کے لئے تیار کر چکے ہیں۔ ایک گھنٹہ بجلی آتی ہے تو دو گھنٹے جاتی ہے۔ اگر غلطی سے دو گھنٹے نہ جائے تو پہلے حیرانگی ہوتی ہے اور پھر پریشانی کہ اب تو آرہی ہے یقیناً اب آئندہ تین سے چار گھنٹے بغیر بجلی کے رہنا پڑے گا۔ دوسری طرف مہنگائی ہے کہ دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور ہم اس کے دبا¶ تلے دبے جا رہے ہیں کب یہ کم ہو گی یہ سوچ بھی اب عوام کے ذہن میں نہیں آتی۔ ٹھیلے والے سے لے کر دکاندار تک صبح سویرے اخبار پڑھ کر حکومت اور اپنی قسمت کو کوستا ضرور ہے مگر عمل میں وہ کچھ نہیں کر سکتا ہے وہ دل چڑھے اپنے گھر کا چولہا جلانے کیلئے گھر سے نکلتا ہے اور رات گئے گھر لوٹتا ہے۔ ایسے میں وہ صرف سوچ سکتا ہے عمل اس کے بس کی بات نہیں۔ وہ کیا کہہ سکتا ہے ایسے حالات میں سوائے حالات کو کوسنے کے۔(صدف ذوالقرنین)

ای پیپر دی نیشن