آصف علی زرداری اپنی صدارتی مدت پوری کرکے محافظوں کے حصار میں گھرے جنت نظیر پُر شکوہ قصرِ صدارت کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے وداع ہو گئے۔ زندگی موت‘ اقتدار میں آنا اور جانایہی قانون قدرت اور اصول فطرت ہے۔ اقتدار کی شاہ نشینوں میں قدرت نے ایسے ایسے لوگوں کو بھی لا بٹھایا جنہوں نے کبھی خواب میں بھی ایسا نہیں سوچا ہوگا۔کتنے ہیں جنہوں نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیااور اس کی مخلوق کی خدمت پر کمر بستہ نظر آئے؟محترمہ بےنظیر بھٹو کے دمِ آخریں تک زرداری نے جاہ وجلال اور شان خسروانہ کے ساتھ ایوانِ صدر میں جانے کا سوچا بھی نہ ہوگا۔ گریجوایٹ نہ ہونے کے باعث وہ تو ایم پی اے کے انتخاب کے بھی اہل نہیں تھے۔قدرت نے ریاست کے سب سے بڑے منصب پر فائز کرنے کا اہتمام کردیا۔دانشور اور تجزیہ کار پارٹی کی حکومتی اور اپنی صدارتی مدت کی تکمیل کوزرداری کے کارناموں میں ہمالہ جیسا قرار دیتے ہیں۔پانچ سال تک ان کی سوچ اسی ایک نکتے کے گرد گھومتی رہی کہ پانچ سال ہر صورت مکمل کئے جائیں۔اس کیلئے انہوں نے اپنی طرز کی ایک مفاہمت بھی ایجاد کی جس کا اعتراف میاں نواز نے پانچ ستمبرکے ظہرانے کے دوران کیا۔زرداری کی سوئی پانچ سال پورے کرنے کی دُھن پر تو اٹکی رہی پارٹی کے مستقبل کے لئے سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی ۔ان کی رخصتی یا سبکدوشی کو باوقار کہنے والے یہ بھی تجزیہ کریں کہ وہ ایوانِ صدر سے رخصت ہوئے تو پیپلز پارٹی کا جنازہ ان کے کندھے پر تھا۔وہ خود کو سیاست کا گرو اور حریفوں کو طفل مکتب سمجھتے رہے۔بے نظیر بھٹو کی دوسری برسی پر شریف زادوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ سیاست ہم سے سیکھو۔پیپلز پارٹی کو پانچ سالہ دور کرپشن کی سنگین اور حماقتوں کی رنگین داستانوں سے معمور ہے۔یہی ان کا توشہ الیکشن تھا جو پارٹی کو دلدل میں دھکیلنے کا سبب بنا۔زرداری اپنی 11سالہ قید پر فخر کرتے ہیںانہوں نے بحالی جمہوریت یا کسی ؑظیم تر قومی مقصدکے لئے جیل قید بھگتی ہوتی تو ہر پاکستانی کے دل میں بسے ہوتے ۔ان کو تو ان اپنے صدر نے جیل میں ڈالا،نواز شریف نے مقدمات بنائے جن پرسوئس عدالت نے سزا بھی سنائی ۔جیل اپنے کرپشن اور بد اعمالیوں کی وجہ سے کاٹی
، ملک وقوم پر کوئی احسان نہیں کیا۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پانچ سال تک صبر سے کام لیا۔۔۔پانچ سال تک عدالتی فیصلوں کی بھد اڑائی جاتی رہی۔فوج کو زیر اور ذلیل کرنے کی سازشیں ہوتی رہیں۔ ڈرون ملکی وقار اور سا لمیت کو خاک میں ملاتے رہے۔کشمیر کاز سے بے وفائی کا مشرفی سلسلہ جاری رہا۔ایک طرف لوڈشیڈنگ کا عفریت تو دوسری طرف کالا باغ منصوبے کو دریا بُرد کرنے کا اعلان کردیا۔ان دونوں کے ذمہ دار راجہ پرویز اشرف کوجسے سپریم کورٹ نے کرپٹ قرار دیا، وزیر اعظم بنا کر عوام کی ان کی اوقات باور کرادی۔ ساتھیوں کو ان کے خاندانوں سمیت لوٹ مار کی کھلی چھٹی تھی۔ مہنگائی، بیروزگاری، لاقانونیت، دہشتگردی اس حکومت کا طرہ امتیاز رہا۔یہ عوام پر ڈھائے جانیوالے جبر اور ان کے صبر کے پانچ سال تھے جو نواز شریف کی مکمل حمایت سے پورے کئے۔ نواز شریف کچھ عرصے کے لئے پٹڑی سے اترے جب ”گو زرداری گو“ تحریک چلائی تاہم جلد ہی سنبھل گئے اور پیپلزپارٹی کے اقتدار کے پانچ سال مکمل کرنے میں پوری معاونت کی۔ یہی ان کا دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی آئینی مدت پوری کرا کے اسے مکمل طور پر ایکسپوز کر کے درگور کردیا یہی ان کی حکمت عملی تھی جس میں وہ مکمل طور پر کامیاب رہے ۔انہوں نے اپنے پتے بڑی خوبصورتی سے کھیلے اور پیپلز پارٹی کو اس کے سربراہ اور رہنماﺅں کے ہاتھوں ہی برباد کرا دیا۔
پیپلز پارٹی کو ماضی کے آمروں اور طاقتورمخالفوں نے ختم کرنے کے لئے ظلم و جبر کے ہتھکنڈے آزمائے ۔قائدین اور کارکنوں کو پھانسیاں دی گئیں ، کوڑے لگائے گئے اور قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا گیا۔ پارٹی کو جتنا دبانے کی کوشش کی گئی وہ اتنے ہی زور سے اُبھری ۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد تین مرتبہ اقتدار میں آنا پی پی پی کی مقبولیت کا درخشندہ باب ہے ۔اب اس پارٹی پر اقتدار دروازے آصف علی زردادری نے ہمیشہ کیلئے نہیں تو کم ا ز اس وقت تک ضرور بند کر دیئے ہیںجب تک وہ خود اس کی کمانڈ کر رہے ہیں اور وہ لوگ جو شریک جرم رہے ، ان کے ساتھ موجود ہیں۔
بینظیر بھٹو قتل ہوئیں گو ان کے قتل کا مقدمہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اور دیگر ملزموں کے خلاف چل رہا ہے ، فیصلہ آنے تک وہ محض ملزم ہیں۔کسی کو بینظیر بھٹو کا قاتل قرار نہیں دیا جاسکتالیکن پیپلز پارٹی کے قاتل کاتعین کرنے کے لئے عقل افلاطون اور دانش سقراط کی ضرورت نہیں۔پیپلز پارٹی کا وہی قاتل ہے جسے اس کی رہبری اور رہنمائی کا دعویٰ ہے۔ جو محترمہ کے قتل کے بعد پارٹی کے سیاہ وسفید کا مالک اور پانچ سال مکمل اختیارات کے ساتھ اقتدار میں رہا۔اسی نے لاکھوں جیالوں کے جذبات کا خون کیا۔ اس نے دیوار کے پار کیا، ناک کے آگے دیکھنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ زرداری اور ان کے اقتداری حواریوں پر کرپشن کے مقدمات کا شمار نہیں۔ انہیں نواز شریف کی نوازشات کی زیادہ ضرورت ہے۔ اسی لئے اگلے پانچ سال سیاست نہ کرنے اور میاں صاحب کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کا یقین دلا رہے ہیں۔ نواز شریف نرمی دکھاتے تو نظر آرہے لیکن عوام نے نواز لیگ کو مینڈیٹ ہی کرپٹ لوگوں کے کڑے احتساب کا دیا تھا جو ان پر پانچ سال عذاب بن کر نازل ہوتے رہے۔ نواز شریف ان کو بے جا رعائتیں دے کر مسلم لیگ ن کو اسی انجام سے دوچار نہیں ہونے دینگے جس انجام سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی زرداری کے ہتھے چڑھ کر ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی رہی سہی ساکھ اس کے بے لاگ احتساب سے ختم ہو جائے گی۔
زرداری کی ایوانِ صدر سے رخصتی
Sep 10, 2013