کبھی کبھی ہمیں اپنی قومی زندگی کے اندر ان صلاحیتوں کو ابھارنے پر بھی بات کرنی چاہئے کہ جن سے ہمارے مستقبل کی تشکیل و تجدید کا سامان ملتا ہو.... کسی دشمن یا سازشی عناصر کیخلاف سیسہ پلائی د یوار بن جانا ایک علیحدہ بات ہے مگر جب اندرونی خلفشار برپا ہو جائے تو معاملات کو ایک اور طرح کی عینک پہن کر دیکھنا پڑتا ہے ۔ کیونکہ جب لوگوں کے اخلاق و کردار بگڑ جاتے ہیں تو اجتماعی طور پر شیرازہ بکھرنے کی صورت سامنے آنے لگتی ہے۔ اب پاکستان کے اندر جنگ و جہاد خود آپس میں تو ہمیں نہیں کرنا ہے‘ جبکہ افغانستان کے اندر یہ سوال موجود ہے کہ امریکی واپس چلے جائینگے تو جو شیرازہ بکھیر کر وہ جا رہے ہیں اس میں شامل افراد کے مختلف گروہ کس طرح سے مثبت سرگرمیوں کا آغاز کر کے اپنے ملک کے پرامن شہری اور دنیا کے سامنے اچھے انسان بن سکیں گے۔ لہذا اب وقت کے اہم تقاضوں پر بھی بات کرنے کی ہمیں ضرورت ہے اور یہ بات تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ بقول حضرت شاہ محمد سلمان تونسویؒ: چوں مسلمانان اعمال حسنہ را ترک کرد اند حق تعالیٰ برایشان کافراں را مسلط کردہ است“ اسلئے اب ہمیں اعمال حسنہ کے بارے میں سوچنا بھی بہت ضروری ہو چکا ہے۔ ”اعمال“ کے اندر ہی موجود ایک چھوٹی سی بات ہے Positivity یعنی ”مثبت سوچ“ جو کہ ہمارے لوگوں سے اس طرح غائب ہے جسے گدھے کے سر سینگ ۔ ہمیں منفی انداز فکر کی لت لگ چکی ہے اس سلسلے میں ایک ہوتی ہے جگ بیتی اور ایک ہوتی ہے ”تن بیتی“ اور ”تن بیتی“ کے اندر آپ اپنے اوپر گزرے ہوئے واقعات و حالات بیان کرتے ہیں اور یہ واقعات و حالات دوسروں کے تجربات سے بہتر انداز میں اس لئے بیان کئے جا سکتے ہیں کہ یہ خود آپ پر گزرنے والے واقعات ہوتے ہیں اور دونوں طرح کے انداز ہی ہمیں زندگی کے سفر میں ہر جگہ ہر مقام پر نظر آتے ہیں۔ ذاتی واقعات میں خود میں بطور شاعرہ سے لیکر اب کالمسٹ ہونے تک لکھنے ‘ پڑھنے کا فریضہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بلاوجہ لوگوں کے رویوں کے مقابلے سے بھی جنگ کرتی آرہی ہوں عالمی شہرت میں پاکستان کے بارے میں دنیا بھر کے مسلمانوں میں یہ لطیفہ مشہور ہے کہ جہنم کے اندر جلتے ہوئے کنو¶ں سے جہنمی چھلانگیں لگا کر باہرنکلنے کی کوششیں کیا کرتے تھے ‘ اس لئے ہر کنویں کے باہر ڈنڈا اٹھائے فرشتہ تعینات کیا گیا تاکہ سزا مکمل ہونے کے بعد ہی یہ لوگ نکل سکیں مگر ایک کنویں کے باہر چوکیدار تعینات کرنے کی ضرورت اس لئے نہیں تھی کہ وہ کنواں پاکستانیوں کا تھا کہ جس کے اندر کے لوگ خود ہی کسی کو جلتے ہوئے کنویں سے نکلنے نہیں دیتے تھے اور ٹانگ کھینچ لیتے تھے۔ مگر ہمیں اب ملک کے اندر جلائے گئے کنو¶ں میں سے جو باہر نکل سکتا ہے اسے نکالناچاہئے تاکہ ہم ”اعمال حسنہ“ کی طرف پہلا قدم بڑھا سکیں۔ بدقسمتی سے امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی پاکستانیوں کے کسی عمل کی شکایت کرنیوالے پاکستانی ہی ہوتے ہیں“ کل ہی صدر آصف علی زرداری ایوان صدر سے رخصت ہوئے اور انہوں نے جو کچھ بھی کہا اسکے باوجود یہ ایک اچھی سیاسی پیش رفت ہمارے سامنے آئی ہے کہ ملک میں پہلی بار ایک عوامی صدر جمہوری طریقے سے ایوان صدر سے رخصت ہوا ہے اس کے لئے تمام سیاسی پارٹیاں اور افواج مبارکباد کی مستحق ہیں۔ میاں نواز شریف کو بھی ”فرینڈلی اپوزیشن“ کا کردار ادا کرنے پر طعنے سننے پڑے تھے اور برداشت کرنا پڑے تھے .... اب صدر زرداری بھی فرینڈلی کردار ادا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ جو کہ موجودہ حالات میں بڑی مثبت بات ہے کیونکہ ملک کو بیرونی سازشی عناصر سے پا ک کرنے کا مرحلہ درپیش ہے اور دشمن ہمارا چہرہ ہمیشہ ہی بگڑا ہوا دیکھنے کا خواہش مند ہے ایسے میں دنیا بھر کے سامنے پاکستان کے اس مثبت سیاسی انداز کا عکس خوبصورت ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے اندر جہاں بھی کوئی چھوٹی سی بھی پیش رفت ہو اسے مل جل کر ہائی لائٹ کیا جائے۔ ہمیں اعتراف کرنے کی بھی عادت نہیں رہی ‘ نہ اچھائیوں کی نہ برائیوں کی بلکہ ہم محض ایک دوسرے پر تنقید کر کے خوش ہوتے رہتے ہیں۔ لہذا مثبت انداز فکر ہی وہ جذبہ ہے جو اس قوم کو منتشر ہونے سے بھی بچائے گا اور دشمنوں کی ان چالوں کو بھی ناکام کرے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ اپنی باتوں ‘ تحریروں‘ گیتوں‘ نغموں اور ٹاک شوز میں منفی انداز فکر کو نکال باہر پھینک دیا جائے۔
مگر ہمیں خود کو ہلاک کئے بغیر اور ایک دوسرے کو ہلاکتوں میں دھکیلے بغیر اس جذبے اور محبت کیلئے خود کو فدا کرنا ہے کہ جو ہمیں منتشر ہونے سے بچائے گا۔ لہذا منفی انداز کی تنقید کے بجائے اگر ہمیں صدر زرداری کو کچھ کہنا ہی ہے تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ کاش آج کے دن کا احساس حکمرانوں کو ایوانوں منقش دروازوں میں داخل ہوتے وقت بھی ہونا چاہئے کہ یہ تعلق عارضی ہے اور یہ تعلق ایک ملک و قوم کے مستقبل کے ساتھ وابستہ ہے اور ایسی ذمہ داری کا نام ہے کہ جس میں اپنی ذات کو نفی کرنا پڑتا ہے اور اس ذمہ داری کے تمام تقاضوں کا جواب اﷲ تعالیٰ کو دینا پڑتا ہے تاکہ باہر نکلتے وقت چہرہ روشن اور ضمیر مطمئن نظر آ سکے ‘ ورنہ یہی ہوتا ہے کہ باہر نکل کر عزت مآب کا رتبہ حاصل کرنے کی بجائے سفر کو نکتہ آغاز سے شروع کرنے کے لئے ہر اس جگہ جانا پڑتا ہے کہ جہاں ان ایوانوں کے اندر بیٹھ کر سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اپنا خیال رکھیئے گا۔
ہمیں کیوں منفی انداِز فکر کی لت لگی ہوئی ہے ؟
Sep 10, 2013