اس میں دو آراءنہیں ہیں کہ بلوچستان کے لوگ بڑی مصیبت میں گرفتار ہیں۔ وہ اپنے آپ کو سخت چٹان اور سمندر کے درمیان گھرا ہوا پا رہے ہیں۔ چکی کے دو پاٹ ہیں جن میں وہ مسلسل پس رہے ہیں۔ ایک طرف علیحدگی پسند ہیں جنہوں نے ان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ بچوں کو وہ سکول نہیں بھیج سکتے۔ قومی پرچم لہرانے اور ترانہ پڑھنے پر پابندی ہے۔ بالفرض کوئی شخص اس کا ”مرتکب“ ہوتا ہے تو اس کی سزا گولی ہے۔ دوسری طرف باامر مجبوری ہی سہی‘ سکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت ان کی آزادی پر قدغن لگا رہی ہے۔ اصل مجرموں کے ساتھ بے گناہ لوگ محض شک کی بنا پر دھر لئے جاتے ہیں۔ گویا مسائل کا ایک کوہِ گراں ہے۔ مصائب کا ٹھاٹھیں مارتا ہو سمندر ہے جس میں مراد کی کوئی کشتی ساحل امید تک نہیں پہنچ سکتی۔
بلوچستان پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اگر سب صفحات کو جمع کریں تو کئی ضخیم کتابیں بنتی ہیں۔ ہر شخص نے ایک دردمند دل کے ساتھ مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر حضرات کا علم عمومی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لکھاری یا تو بلوچستان گئے نہیں یا پھر کوئٹہ کو ہی بلوچستان سمجھ بیٹھے ہیں۔ ان کے تجزیئے کی بنیاد ٹی وی ٹاک شوز اور پرنٹ میڈیا ہے۔ ان تبصروں کا تجزیہ کرںی تو چند باتوں کا ذکر سب نے کیا ہے۔ 1۔ سب حکومتوں نے بلوچستان کے مسائل پر خصوصی توجہ نہیں دی۔ 2۔ بلوچستان کے وسائل کو اس کے عوام پر خرچ نہیں کیا گیا۔ 3۔ بلوچوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ 4۔ تالیف قلوب کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ چند دیگر ”ایشوز“ بھی ہیں جن میں نواب اکبر بگٹی کا قتل اور گوادر پورٹ کی ”ترقی“ نمایاں ہیں۔ حال ہی میں سردار عطاءاللہ مینگل کے بیٹے اختر مینگل کا انٹرویو چھپا ہے جس میں اس نے الزام لگایا ہے کہ بلوچوں کا مینڈیٹ چرایا گیا ہے۔ 2013ءکے الیکشن میں دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا ہے۔
آج سے تقریباً چوالیس برس قبل میں نے بلوچستان کے مسائل و دیگر موضوعات پر کتاب ”اجنبی اپنے دیس“ میں لکھی۔ میں نے جو لکھا آج حرف بحرف درست ثابت ہو رہا ہے۔ جن مسائل کی نشاندہی کی ان میں اضافہ ہو گیا ہے۔ انتظامیہ کی جس بے حسی اور نااہلی کا ذکر کیا وہ ہنوز قائم ہے۔ مغربی پاکستان کے چیف سیکرٹری کو اس بات کا علم تک نہ تھاکہ ضلع مکران کا ہیڈکوارٹر تربت ہے۔ اس نالائقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیکرٹریٹ والوں نے پوچھا کہ تربت مکران سے کتنا دور ہے؟ اس پر ڈی سی صاحب کی رگ ظرافت پھڑکی۔ انہوں نے لکھا جتنا لاہور پنجاب سے دور ہے‘ ایک دور افتادہ اور ”غیر مہذب“ ضلع کے سربراہ کی یہ جرا¿ت رندانہ مزاج خسروی سے براہ راست ٹکرائی اور انہوں نے سارے ضلع کو طاق نسیاں میں ڈال دیا۔ ان کی رعونت کا یہ عالم تھا کہ جب میں نے اپنی کتاب ”اجنبی اپنے دیس میں‘ منظوری کیلئے بھیجی تو حکومت نے بیک جنبش قلم پابندی لگا دی۔ وجہ یہ لکھی ”یہ کتاب انتظامیہ کیلئے پریشانی کا موجب بنے گی۔“ کتاب کا عنوان مصنف کے خیالات کی چغلی کھا رہا ہے۔ میں نے پابندی کی پروا نہ کرتے ہوئے کتاب چھاپ دی جس کو بفضل ربی تعالیٰ بڑی پذیرائی ملی۔ یہ بلوچستان پر اس اعتبار سے مستند کتاب تھی کہ میں وہاں تین سال تک رہا۔ بلوچوں کے مسائل کو سمجھا۔ اس کسک کو محسوس کیا جو وہاں ہر دل میں ایک ہوک کی صورت میں موجود تھی۔ ان کا دکھ درد بانٹا۔ ان کی خوشیوں میں شریک ہوا۔ سب سے بڑھ کر خوداحتسابی کی منزل سے گزرا۔ مسئلہ تو پہلے سے موجود تھا۔ سول سروس کے لوگوں نے اس کی گھمبیرتا میں اضافہ کیا۔ میں نے ان کی کوتاہ نظری کا برملا ذکر کیا اور ان پالیسیوں کو بے نقاب کیا جس کی وجہ سے نفرت‘ بداعتمادی کی خلیج وسیع سے وسیع تم ہوتی چلی گئی۔
میرا تعلق صوبائی سول سروس سے ہے۔ 1967ءمیں میرا پہلا تقرر مکران ہو گیا۔ مجھ پر بڑی گھبراہٹ طاری ہوئی۔ مکران کو میں بلاوزی کے حوالے سے جانتا تھا۔ صاحب فتوح البلان لکھتا ہے فتح مکران سے قبل خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ نے حکم بن جبلتلوی کو وہاں کے حالات جاننے کیلئے مکران بھیجا۔ واپسی پر اس نے جو رپورٹ دی وہ کافی حوصلہ شکن تھی۔ بولا ”پانی بہت کم ہے‘ پھل سخت کڑواہے اورچوریادہ ہیں۔“ زیادہ فوج بھیجی تو بھوک سے مر جائے گی۔ تھوڑی کو چور مار دیں گے۔ حکم کو یقینا بتایا گیا ہوگا کہ قبل ازیں سائرس‘ سمیرا مکی اور سکندر اعظم کی فوجیں مکران میں نیست و نابود ہو گئی تھیں۔ اس تاریخی تناظر میں جب میں نے والد صاحب سے ذکر کیا تو ایک لمحے کے توقف کے بغیر بولے ”بہت اچھا ہوا ہے‘ آدمی شروع سے مشکل مقامات میں نوکری کرے تو پھر اسے زندگی بھر تکلیف نہیں ہوتی۔“
میں 11 دن میں مکران پہنچا۔ تلہ گنگ سے کوئٹہ پہنچنے میں دو دن لگ گئے۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ ہفتے میں ایک دن بس جاتی ہے جو نکل چکی ہے۔ جب بس چلی تو قلات جا کر رک گئی۔ بتایا گیا کہ صبح کونوائی چلے گی۔ مسلح دستے پہاڑوں پر پکٹنگ کریں گے تو کونوائی حرکت کرے گی۔ دوسری رات سوراب میں آگئی۔ کریدنے پر معلوم ہوا کہ خضدار سے جو کونوالی آئے گی اس کی حفاظت میں سفر کرنا ہوگا۔ تیسری رات بسِمہ میں گزارنی پڑی۔ اب کے خاران کی کانوائی کی معیت میں آگے بڑھنا ہوگا۔ براستہ ناگ جب پنجگور پہنچے تو معلوم ہوا کہ تربت ہفتے میں دو دن بس سروس ہے۔ تمام راستے میں گھاس کا ایک تنکا تک نظر نہ آیا۔ تمام زمین سوختنی تھی۔ میلوں تک پینے کا پانی نہ ملتا تھا۔ کس قدر بے سروسامانی تھی۔ کوئی ویرانی سی ویرانی تھی۔ کھیت کھلیان‘ بستیاں اور مکان‘ مساجد اور مزارت۔ کچھ بھی تو نظر نہ آیا۔مزید کریدنے پر معلوم ہوا کہ نواب نوروز خان نے مسلح بغاوت کی تھی۔ فوجی ایکشن ہوا۔ بمباری ہوئی۔ بالآخر سردار دودا خان زرکزئی قرآن شریف لیکر اس کے پاس گیا اور اسے یقین دلایا کہ حکومت صلح کرنا چاہتی ہے۔ اس نے گرفتاری دیدی۔ حکومت نے بدعہدی کی۔ اس پر اور اس کے ساتھیوں پر مقدمہ چلا اور انہیں سزائے موت ہوگئی ۔اس پر سارے بلوچستان میں آگ لگ گئی۔ یہ حکومت جھوٹی ہے ایک عام تاثر قائم ہو گیا۔
”ایک ذرا سی لغزش بعض اوقات قومی اسمبلیوںکی تمہید بنتی ہے۔ بلوچ مزاج کو سمجھنے کیلئے بعض بنیادی حقائق کا جاننا نہایت ضروری ہے۔ ایک دفعہ جو بات غلط یا درست طورپر ان کے ذہن میں بیٹھ جائے۔ اس کو دنیا کا کوئی نشتر نہیں نکال سکتا۔ ”مجھے ایسے محسوس ہوا کہ ابھی میں سگریٹ جلانے کیلئے دیاسلائی کو ماچس پر رگڑوں گا‘ روشنی کا مدھم شعلہ پھوٹے گا۔ پھر کسی کمین گاہ سے کوئی آتشیں شعلہ میری طرف لپکے گا اور میں اس عالم رنگ و بو سے فضائے بسیط کی لامحدود بلندیوں سے ہمکنار ہو جاﺅں گا۔