روح رواں تھے وقت کی آواز کے مجید

مکرمی! محترم مجید نظامی کو دنیا سے پردہ کئے 47 رورز گزر چکے ہیں مگر ان کا مشن جاری ہے۔ نہ صرف مشن بلکہ پالیسی بھی وہی ہے جو ”نوائے وقت “ کے بانی جناب حمید نظامی اور معمار جناب مجید نظامی نے قائم کی تھی اس کا کریڈٹ محترمہ رمیزہ مجید نظامی کو جاتا ہے جو صحیح معنوں میں نہ صرف نوائے وقت پبلی کیشنز بلکہ جناب مجید نظامی صاحب کے افکار کی بھی وارث ہےں۔محترم مجید نظامی صاحب سے میری دو یا تین ملاقاتیں ہوئیں۔ ان چند ملاقاتوں کی یاد مجھے معطر رکھتی ہے۔ 2013ءمیں پنجابی تحریروں پر مشتمل میری کتاب ” وڈے لوک وڈیاں گلاں“ میری خواہش تھی کہ میں اپنے یہ کتاب محترم مجید نظامی کو پیش کروں اس سلسلے میں شفیق سلطان صاحب سے بات کی ۔ ان سے میں نے یہ بھی کہا کہ میرا مقصد صرف کتاب پیش کرتا ہے۔ پانچ منٹ سے زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ انہوں نے نظامی صاحب سے بات کی اور مجھے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت انکے پاس جسٹس (ر) آفتاب فرخ تشریف فرما تھے۔ کتاب پنجابی زبان میں تھی، اس لئے میں نے پنجابی میں لکھا ”نڈر‘ ان جھک‘ دلیر‘ صحافت دے لج پال‘ آدرمان محترم مجید نظامی دی سیوا وچ“
ان کو کتاب پیش کرنے کے بعد میں نے بتایا کہ بے باک اور آبروئے صحافت کا ترجمہ میں نے ان جھک اور لج پال کیا ہے محترم مجید نظامی نے کہا کہ میں پنجابی سمجھتا ہوں اور بولتا بھی ہوں۔ انہوں نے مجھ سے پنجابی ہی میں گفتگو کی، کیمرہ میں اپنے ساتھ لے گیا تھا کتاب پیش کرنے کے بعد میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ کو کتاب پیش کرتے ہوئے تصویر اتروانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا تصویر کیوں اتروانا چاہتے ہو، میں نے عرض کیا۔فریم کرا کے ڈارئنگ روم میں رکھوں گا۔ اس تصویر کو دیکھ کر میری اولاد (فخر سے کہہ سکے گی کہ ہمارے بابا کی تصویر ایک عہد ساز شخصیت کے ساتھ ہے۔ نظامی صاحب ہلکا سا مسکرائے اور انہوں نے تصویر اتارنے کی اجازت دے دی۔ یہ تصویر میرے ڈرائنگ روم میں آویزاں ہے۔ اب یہ تاریخی حیثیت کی حامل ہوگئی ہے۔
 تصویر اتار نے کے بعد میں نے اجازت چاہی تو انہوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئی انکی نظر مسعود کھدر پوش کے بارے میں میرے لکھئے ہوئے مضمون پر پڑی۔ محترم مجید نظام نے فرمایا۔ مجھے نہیں معلوم کہ تم نے مسعود کھدر پوش صاحب کے بارے میں کیا لکھا ہے۔ لندن قیام کے دوران میری ان سے ملاقاتیں رہی ہےں۔ انہوں نے تحریک شروع کی کہ نماز عربی زبان کے بجائے پنجابی زبان میں پڑھی جائے۔ میں نے اس بات کی شدید مخالفت کی تھی۔ لاہور میں ایک تحریک ایسی بھی چلی جنہوں نے کہا کہ نماز اردوں زبان میں پڑھی جائے۔ قرآن اپنے الفاظ میں خدا کی طرف سے نازل شدہ وحی ہے۔ ان الفاظ کی جگہ کوئی اور زبان نہیں لے سکتی۔ علامہ اقبال نے ضرب کلیم میں ” جان وتن“ کے عنوان کے ما تحت کہا ہے ....
ارتباط حرف و معنی’ اختلاط جان وتن
جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے
 اس شعر میں انہوں نے مختصر انداز سے اس بحث کو سمو دیا ہے۔عربی زبان ایسی وسیع’ گہری اور جامع ہے کہ ماہرین علم السنہ کی تحقیق کے مطابق دنیا کی کوئی دوسری زبان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں تحریکیں (اردو اور پنجابی زبان میں نماز پڑھی جانے والیں) خطرناک تھیں۔ قومی کی جہالت دور کرنے کیلئے اس قرآن مجید کے قریب لایا جائے۔
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
محترم مجید نظامی صاحب کا فرمانا تھا کہ بے شک میری مادری زبان پنجابی ہے اور اس ناتے مجھے اس پر فخر ہے مگر مذہبی حوالے سے اس کو یہ مقام نہیں دیا جاسکتا کہ نماز پنجابی میں پڑھی جائے۔میں نے محترم مجید نظامی کے موقف سے پوار پورا اتفاق کیا اور عرض کیا کہ میں نے اپنے مضمون میں مسعود کھدر پوش صاحب کی تحریک کا ذکر نہیں کیا اس لئے کہ میں اس بات کو غلط سمجھتا تھا اور سمجھتا ہوں آخر میں محترم مجید صاحب کی نذر ایک شعر کر رہا ہوں۔
قائم رکھا وقار صحافت کا ملک میں
روح رواں تھے وقت کی آواز کے مجید

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...