اسلام آباد (خصوصی نمائندہ + ایجنسیاں) سینیٹ میں صدر مملکت کے پارلیمنٹ سے خطاب کو اپوزیشن نے سیکشن افسر کی لکھی ہوئی تقریر اور حکومتی سینیٹرز کی جانب سے اہم سنگ میل قرار دیا گیا‘ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے سخت تنقید کی اور کہا کہ صدر کا خطاب مسلم لیگ (ن) کا ویژن تھا صدر کا اپنا ویژن کہیں بھی نظر نہیں آیا‘ حکومتی کمزوریوں پر کوئی بات نہیں کی گئی‘ آئین کی بالادستی سمیت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو بھی خراج تحسین پیش نہیں کیا گیا‘ مردم شماری کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی جو وقت کی اہم ضرورت ہے‘ حکومتی سینیٹرز نے کہا کہ صدر نے معیشت کا موازنہ پیش کیا‘ اجلاس پریذائیڈنگ افسر احمد حسن کی صدارت میں ہوا۔ طاہر مشہدی نے کہا کہ صدر نے حکومت کی کمزوریوں کو اجاگر نہیں کیا کہ اصلاح کی جائے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فورسز کی قربانیوں کو ٹھیک طرح سے خراج تحسین پیش نہیں کیا گیا۔ لاپتہ افراد کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ یہ ایک کالا داغ ہے۔ پنجاب میں ماورائے عدالت پولیس مقابلوں پر بات نہیں کی۔ خارجہ پالیسی ناکام ہونے کی وجہ سے ہم تنہا ہوگئے ہیں لیکن اس پر انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ صدر نے پاکستان کو درپیش تمام مسائل کا جامع انداز میں تذکرہ کیا۔ ان کا خطاب بڑا متوازن تھا۔ نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ خطاب میں ویژن نہیں تھا ملک کیلئے کسی ویژن کا صدر کے خطاب میں تذکرہ نہیں تھا۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ صدر کی نظر آئین اور قانون پر عمل درآمد پر ہونی چاہئے صدر پاکستان نے آئین پر عمل درآمد کا ذکر ہی نہیں کیا۔ 18ویں ترمیم سے تجاوز کیا جارہا ہے یہ آئینی مسائل ہیں مگر صدر کے خطاب میں اس پر مکمل خاموشی تھی۔ صدر پاکستان جتنے اس حکومت سے مطمئن ہیں اتنے وزیراعظم بھی مطمئن نہیں ہیں۔ سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ ہمارے صدرکی سیکشن افسرکی لکھی ہوئی تقریر پر بحث بے سود ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمان نے تحریک پیش کی کہ فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2016ءقومی اسمبلی کی منظور کردہ صورت میں زیر غور لایا جائے جس پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس بھی اس بل کا حصہ ہے جو ختم ہو چکا اس لئے بل میں ترمیم کرکے دوبارہ اسے قومی اسمبلی سے سینٹ میں بھجوایا جائے۔ پینل آف پریزائیڈنگ کے رکن سینیٹر احمد حسن نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔ ان سینٹ نے دستور (ترمیمی) بل 2016ءپر قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی رپورٹ پیش کرنے کی مدت میں توسیع کی منظوری دے دی۔ سیکرٹری سینٹ امجد پرویز نے بتایا کہ 66 پبلک پٹیشنز میں سے 10 متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھجوا دی گئی ہیں ¾ 56 پبلک پٹیشنز کو ناقابل سماعت قرار دیا گیا ہے۔ سینٹ نے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے لئے سینٹ سے نامزدگیوں کےلئے چیئرمین سینٹ کو قائد حزب اختلاف اور قائد ایوان کے ساتھ مشاورت کا اختیار دے دیا ہے اس سلسلے میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے تحریک پیش کی جسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔ پٹھان کوٹ ائربیس پر حملے کے حوالے سے شواہد سے متعلق سوال کا معاملہ م¶خر کر دیا گیا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے ایوان کو بتایا کہ وزیراعظم نے اسلام آباد کے دیہی علاقوں میں صحت کے مراکز کی حالت بہتر بنانے کےلئے پانچ کروڑ 86 لاکھ روپے سے زائد کی منظوری دی ہے ¾ ان بنیادی صحت کے مراکز پر 1999ءکے بعد کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ قانون برائے انسداد منشیات ایکٹ 1997ءکے مطابق بھی ہر صوبائی حکومت اپنی متعلقہ حدود میں منشیات استعمال کرنے والوں کے علاج و بحالی کے مقصد کے لئے ان کی رجسٹریشن کی پابند ہے۔ ایوان کو بتایا گیا کہ 30 جون 2013ءسے اسلحہ لائسنسوں کے اجراءپر پابندی عائد ہے۔ پابندی اٹھانے کی تجویز پر غور نہیں کیا جارہا۔ 2014-15ءمیں پاکستان ریلویز کے اخراجات 59 ارب 17 کروڑ 70 لاکھ روپے جبکہ 2015-16ءمیں 63 ارب 15 کروڑ 60 لاکھ روپے ہوا ہے۔ وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز میں اضافے اور دیگر وجوہات کی بناءپر اخراجات میں اضافہ ہوا۔ ایف ڈبلیو او کے ملازمین کی کل تعداد 14 ہزار 597 ہے جن میں سے 5 ہزار 391 ٹیکنیکل سٹاف اور نان ٹیکنیکل سٹاف 9ہزار 206 ہے ¾اس وقت ایف ڈبلیو او کے جاری منصوبوں کی تعداد 59 ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر بھرپور طریقے سے عمل ہو رہا ہے، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آپریشن جاری ہے۔ وقفہ سوالات میں سینیٹر جنرل ریٹائرڈ صلاح الدین ترمذی نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ سرکاری پاسپورٹ کیلئے یو اے ای سے اجازت ناگزیر ہو چکی ہے جو کہ چونکا دینے والا معاملہ ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ نے کہا کہ ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ بہت جلد اس معاملہ کو حل کرلیا جائے گا۔ سینٹ کا اجلاس غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا گیا۔
سینیٹ