روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کی ایک عجیب داستان ہے جو وہ عرصہ دراز سے برداشت کرتے آرہے ہیں البتہ ہم جیسے بھائیوں کو اُن مسلمانوں کی تب یاد آتی ہے جب ہمارے ملک میںکوئی قومی مسئلہ زیر بحث نہیں ہوتا۔ ہر دن مائوں کی آنکھوں کے سامنے اُن کا لخت جگر زندہ جلادیا جاتا ہے بہت سے بدنصیب اپنی مائوںبہنوں اور بیٹیوں کی عزت کا جنازہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہیں مگر بے بسی اور مظلومیت کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی اس ظلم کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا۔جو کھڑا ہو جائے اس کو زندہ جلا کر نشان عبرت بنا دیا جاتاہے ۔ہزاروں گھروں کو اب تک جلایا جا چکا ہے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا اسکے علاوہ لاکھوں مسلمان نقل مکانی کر کے بنگلہ دیش کا رخ کر رہیہیںایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دو ہفتوں میں میانمار سے بنگلہ دیش پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد سوا لاکھ تک پہنچ چکی ہے جبکہ ایک دنمیں تقریباََ 35 ہزار لوگوں نے نقل مکانی کی جوکہ ایک دن میں نقل مکانی کرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے
مسلمان اس وقت پوری دنیا میں زوال پذیر ہیں۔ فلسطین ،کشمیر ،شام ،عراق یا پھرروہنگیا کے مظلوم مسلمان ہوں سب کے سب ہی پستی کا شکار ہیں ۔اس میں کسی اور کا کوئی قصور نہیں ہمارا اپنا قصور ہے۔جو قومیںاپنی ناکامی کا ذمہ دوسروں پرڈالتی ہیں درحقیقت وہ اپنی رسوائی اور ناکامیوں کی ذمہ دار خود ہوتی ہیں۔اُن کے اندر اخلاق،تہذیب و تمدن اورمعاشرتی اور اخلاقی روایات کی خاصی کمی نظر آتیہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسی قوموں کی معیشت اور معاشرت کمزور ہونے کی وجہ سے طاقت ور قومیں ان پر مسلط ہو جاتی ہیں۔تمام ناکامیوں کے پیچھے بہت سی وجوہات کارفرما ہوتی ہیں۔ یہ قومیں سب سے پہلے اپنی پہچان کو بھول جاتی ہیں اخلاقیات اور معاشرت میں دوسری اقوام کی پیروی کرتی ہیں اور اپنے اسلاف اور تہذیب کو چھوڑ کردوسروں کی تہذیب اور اقدار کو اپنانا شروع کر دیتی ہیں جو ان کی ناکامی کی وجہ بنتی ہے۔اقبال نے کیا خوب فرمایا
حیدری فقر ہے نہ دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
جب سے ہم نے اپنے اسلاف کی تعلیمات اور رویات کو چھوڑا اُس وقت سے آج تک ہم زوال پذیر ہیں۔ہم نہ صرف نام کے مسلمان ہیںبلکہ ہماری اپنے اسلاف سے کوئی نسبت نہیں ہے۔جو باقی ماندہ آزاد مسلمان ممالک ہیں وہ بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں یا پھر کسی بڑی غیر مسلم طاقت کے زیراثر کام کر تے ہوئے فخر محسوس کر رہے ہیں۔اپنے پاکستان کو دیکھ لیں کئی برسوں تک ہم نے امریکہ کے مفادات کا تحفظ کیا اور اب چائنہ کی طرف دیکھ رہے ہیں اپنے بازوں میں اتنا دم نہیں کہ ہم اپنے معاملات اور معیشت کو خود چلا سکیں بلکہ ہم دوسروں کے سہارے پر ترقی کا سفر طے کرنا چاہتے ہیں جوکہ ناممکن سی بات ہے یہی سوچ ہر قوم کو دن بہ دن تنزلی کی طرف لے کر جاتی ہے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تاریک قرآن ہوکر
روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ حالیہ ظلم و جبر کی داستان زبان زد عام ہے۔یہ مسلمانوں کا قتل عام نہیں بلکہ انسانیت کا قتل عام ہورہا ہے۔مسلم ممالک سمیت پوری دنیا کی طرف سے اس ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی جارہی ہے۔ مسلمان ممالک کے نام نہاد ٹھکیداروں کی طرف سے ایسے ظلم وجبر پر کسی قسم کی کوئی آوازسنائی نہیں دے رہی۔عیسائیوں کا روحانی پیشوا تو اس ظلم پر سراپا احتجاج نظر آرہا ہے مگر افسوس ہمارے اپنے اماموں کو یہ ظلم نظر نہیں آرہا ہے۔ میں سلام پیش کرتا ہوں ترکی کے صدر طیب ایردوان کو جس نے اس ظلم کے خلاف نہ صرف آواز اُٹھائی بلکہ پوری دنیا کو اس ظلم سے آگاہ کیا اور روہنگیا کے مسلمانوں کو ہر طرح کی مدد کی پیش کش بھی کی۔پاکستان میں اس حوالے سے دفتر خارجہ کی طرف سے لفظی گولہ باری کی گئی لیکن اس مسئلہ کے حل کے لیے جو کردار پاکستان کو ادا کرنا چاہیئے تھا وہ ابھی تک ادا نہیں کیا گیا۔ پاکستان کی ایک سفارتی کوشش روہنگیا کے مسلمانوں کے حالات کو تبدیل کر سکتی ہے احتجاج اور لفاظی بیانات سے برما کے مسلمانوں پر ظلم بند نہیں ہو گا اور نہ ہی ہماری پارلیمان میں قرار دادوں سے اُن مظلوموں کی دادرسی ہوسکتی ہے۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اس وقت اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اُن کے لیے عرض ہے کہ ہمیں تن تنہاء کوئی بھی قدم نہیں اُٹھانا چاہیئے اور نہ ہی ہم ایسے اقدامات کے متحمل ہوسکتے ہیں۔برمی فوج کو جس طرح اسرائیل اور بھارت کی سپورٹ حاصل ہے اسی طرح ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم سفارتی محاذ پر تمام مسلمان ممالک اور عالمی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر لائیں اور اس معاملے کا جامع حل نکالیںتاکہ انسانیت اور مسلمانیت پر ظلم و ستم کو بند کروایا جاسکے۔اللہ روہنگیا کے مسلمانوں پر رحم فرمائے اور اُن کو جلد ازجلد اس ظلم سے چھٹکارا نصیب فرمائے۔
نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشت ویراں سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
روہنگیاکے مسلمانوں پر ظلم وستم…آخر کیوں !!!
Sep 10, 2017