میانمار میں بہتا لہو…پس منظر، پیش نظر!

Sep 10, 2017

بیدار سرمدی

ان دنوں اسی میانمار (برما) کے ایک صوبے اراکان سے دکھی مسلمان عورتوں بچوں اور مردوں کی چیخوں اور لہورنگ واقعات کی خبریں آرہی ہیں جس کے ایک مدت تک رہنے والے دارالحکومت رنگون میں آخری مغل بادشاہ ابوظفرسراج الدین محمد المعروف بہادرشاہ ظفرکو اذیت ناک زندگی کے آخری دن اور غمناک موت کے انجام سے گزارا گیا تھا۔ تدفین بھی ایسی ہوئی تھی کہ جب 20برس کے بعد اسی قیدخانے میں ان کی محبوب بیگم زینت محل نے دم توڑا اور تدفین کے لئے شوہرکی قبرکی نشانی ڈھونڈی گئی توایک اندازے سے ایک درخت کے پاس دہلی کی اس ملکہ کو سپردخاک کیا گیا پھردوسال بعد بہادرشاہ ظفرکے بیٹے مرزا جواں بخت نے جان جانِ کے سپردکی توانہیں بھی اندازے سے اسی جگہ سپردخاک کیا گیا تب انگریزوں کا راج تھا انگریزوں نے تاج وتخت کی باقیات پر مظالم کے لئے بھی اوربرصغیرکے جیدعلماء اور آزادی کے متوالوں کے لئے بھی پورے ایشیا میں سخت ترین سزاؤں اور اذیت ناک انجام کے لئے برما کوہی چنا تھا اور آج اگربھارت اسرائیل اور بر ما کے بااثرطبقے (فوج اور بت مت کے نام لیواؤں ) مل کر روہنگیا مسلمانوں کے لئے اس علاقے کی زمین تنگ کررہے ہیں تویہ ظلم پر مبنی ایک تاریخ کا تسلسل ہی ہے لاہور ہائی کورٹ کے سینئروکیل چوہدری نذیراحمد جاوید نے ایک نشت میں یہ چونکا دینے والی باتیں کیں تومیرا دھیان اس المیے کے اور بہت سے پہلوؤں اور سوالوں کی طرف چلا گیا مثلاً یہ کہ میانمار میں نسلی تعصب کی یہ آگ وقفے وقفے سے سلگنے کے بعد اب بھڑک اٹھتی ہے تواس کے پیچھے کوئی بڑا ایجنڈا ضرور ہے وہ کیا ہے؟ میانمار کے بنگلہ دیش سے ملحقہ ساحلی صوبہ اراکان (جسے اب رکھائن نام دیا گیا ہے ) ایک مدت سے مسلم اکثریتی صوبہ رہا ہے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے خلاف اہم کردارادا کرنے کی صورت میں انگریزوں نے اس صوبہ کو آزاد ملک کا درجہ دینے کا وعدہ کیا تھا یہ وعدہ 1948میں برما (میانمار)کو آزادی دیتے وقت کیوں بھلادیا گیا اور پھرکچھ عرصہ سے برطانیہ اسرائیل اور بھارت نے اس صوبہ پر خصوصی توجہ دینے اور طاقت کے استعمال کے لئے میانمار کی حکومت کو بے دریغ اسلحہ کیوں بیچا؟ اسرائیل کی اب اسلحہ ساز کمپنی ٹارآئیڈل کن سیپٹ نے میانمار کی سپیشل فورسزکو خاص طور پر مسلم اکثریتی صوبہ اراکان (اب رکھائن) میں تربیتی مشقیں او اپنے تجزیہ شدہ اسلحہ کا استعمال کیوں سکھایا؟ گزشتہ دو دہائیوں سے اچانک یہ پروپیگنڈہ کیوں کیا جانے لگا کہ روہنگیا مسلمان اپنے رنگ روپ اور شکل وصورت سے بنگالی ہیں اور 1982میں نئے شہری قوانین لاکر لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو محض مذہب رنگ اور روپ کی بنیاد پر غیر ملکی قراردیا گیا اگرروہنگیا مسلمان بنگالی کے تھے توانہیں بنگلہ دیش یا بھارتی بنگال میں شہریت کیوں نہیں دی جارہی ؟ صاف نظرآرہا ہے کہ مغربی طاقتیں اور اس خطے میں ان کے ایجنٹ کسی نئے کھیل کا آغاز کررہے ہیں تنگ آمد بجنگ آمد کی کچھ جھلکیاں پہلے ہی سامنے آچکی ہیں جن کے بہانے میانمار کی فوج اور دوسری سرکاری عسکری تنظیمیں رات دن رکھائن کے اہم ساحلی صوبے نئے مسلمانوں کو بے دخل کرنے میں مصروف ہیں المیہ یہ ہے کہ فوجی جنتا نے نام نہاد بدھ مت کے ساتھ مل کر یہ کھیل کھیلنا شروع کیا ہے ۔ بھارت ان کو اشتعمال کرکے اپنا الو سیدھا کررہا ہے ۔ موجودہ نام نہاد سول حکومت سے پہلے فوجی جنتا نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے بدھ مت کے لیڈروں کو روہنگیاں مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا تھا تاکہ سول آبادی آپس میں الجھی رہے اور پھرچل سوچل۔ اب گزشتہ دودہائیوں سے عالمی سطح پر دہشت گردی کو صرف مسلمانوں کے ساتھ جوڑنے کی پالیسی نے روہنگیا کے مسلمانوں کو اورزیادہ نشانے پر رکھ لیا ہے۔ اسرائیلی قیادت کی عملی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی قیادت کھل کر سامنے آگئی ہے گجرات قتل عام فیم مودی نے خاص طور پر برما(میانمار) کے نئے دارالحکو مت …پہنچے تو میانمار کے قاتلوں کو خوش کرنے کے لئے بغیر خرچ کے بھارتی ویزا کی سہولت کا اعلان بھی کردیا خطے میں بدلتی ہوئی صورت حال ہماری قیادت کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے بھارت نے امریکہ سے مل کر ایک طرف افغانستان میں پاؤں جماچکا ہے اور مسلسل کوشش میں ہے کہ پاکستان کی کسی پڑوسی سے دوستی نہ رہے اور یوں تنہا ہوکر پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکے دوسری طرف وہ خودایشین ٹرائی لیسٹرل ہائی ہے( بھارت میانمار تھائی لینڈ برونائی کمبوڈیا انڈونیشیا، لاؤس فلپائن سنگاپور ویت نام کے ذریعے مشرق کے تمام ملکوں کو تجارتی ہب میں بدل رہا ہے اور آسیان کا پلیٹ فارم استعمال کررہا ہے اس کے ساتھ کالا وان (دریا) پروجیکٹ (روڈ اور کارگوپروجیکٹ ) کی تکمیل میں لگا ہے اور یہ دونوں بڑے منصوبے 2020ء تک مکمل ہوتے جارہے ہیں چین سے ورکنگ ویلشین شپ عروج پر ہے را کی افغانستان کے راستے پاکستان اور کشمیرمیں براہ راست دہشت گردی کے باوجود بھارت اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کے ثمرات سمیٹ رہا ہے اور ہم ہزاروں جانوں کا نذرانہ دے کر بھی مقروض بدحال اور تنہا ہوتے جارہے ہیں کم ازکم میانمار کے صوبے رکھائن (اراکان) سے بلند ہونے والی چیخوں سے ہمیں بیدارہوجانا چاہیے لیکن بیداری توتب ممکن ہے جب ہماری سیاست ہماری حکمت عملی ذاتی مفادات سے بالاتر ہو۔

مزیدخبریں