صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ گزشتہ چند صدیوں سے مسلم دنیا علمی معاملے پر قابل ذکر توجہ نہیں دے سکی،سائنس کی حیرت انگیز ترقی کے باعث دنیا تبدیل ہو رہی ہے ،دکھ ہوتاہے کہ ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ضروری ہے کہ مسلم دنیا سیاسی، سماجی، اقتصادی اور سائنس کے شعبے میں خود کفالت حاصل کرے،ضروری ہے ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیں کیونکہ اس کے بغیر معیار زندگی میں بہتری اور مسائل کے حل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، انسانیت بے بسی کے عالم میںکسی مسیحا کی منتظر ہے،مسلم دنیا کی ترقی و خوشحالی آنے والی نسلوں کے لیے ضروری ہے اور پاکستان اس معاملے میں تمام تر ذمے داریاں اداکرے گا۔ ان خیالات کا اظہار صدر ممنون نے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی اور تخلیقی انداز فکر پر پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس میں او آئی سی کے 22 ممالک کے سربراہ اور اعلیٰ حکام شریک ہیں۔ صدر ممنون حسین نے کہا کہ اسلامی دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی و تخلیقی انداز فکر کے فروغ کے لئے پاکستانی وفد اور کامسٹیک کے سربراہ کی حیثیت سے کانفرنس میں شرکت میرے لئے باعث فخر ہے۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ آج کا دن اس اعتبار سے تادیر یاد رکھا جائے گا کہ اس روز یہاں علم و حکمت سے متعلق مسلمانوں کی عملی روایت کے احیائ، مستقبل کے چیلنجز پر غور و فکر اور ان سے نمٹنے کی حکمت عملی کی تشکیل کے لئے مسلمان قیادت کا پہلی بار اتنا بڑا اجتماع ہوا۔ ان کا کہنا تھا کانفرنس میں شریک قائدین کے خلوص اور جوش و جذبہ سے واضح ہے کہ یہ کانفرنس اپنے مقاصد میں کامیاب رہے گی اور اس کے فیصلوں پر عملدرآمد سے مسلم دنیا علم و حکمت کے شعبوں میں ناصرف مزید پیش رفت کر سکے گی بلکہ اپنی عظمت رفتہ کی بحالی میں بھی کامیاب رہے گی۔ ان کا کہنا تھا یہ کھلی حقیقت ہے کہ گذشتہ چند صدیوں کے دوران مسلم دنیا عملی معاملات پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکی جس کا اندازہ تعلیم و تحقیق میں کارکردگی کے علاوہ ایجادات اور پیٹنٹس کے اعداد و شمار سے بھی ہوتا ہے۔ صدر کا کہنا تھا یہ کہتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ اس میدان میں ہم معاصر دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کی پیچیدہ دنیا میں اپنے جائز مقام کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی دنیا، سیاسی، سماجی اور اقتصادی ہر شعبہ میں خودکفالت اختیار کرے تاکہ اس کے عوام خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں۔ اس کے لئے ضروری ہے ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیں کیونکہ اس کے بغیر معیار زندگی میں بہتری اور مسائل کے حل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی اور دیگر عوامل کے باعث آج کی دنیا تیز رفتار تبدیلیوں کی زد میں ہے جس کے سبب پیچیدہ عالمی معاملات ہی نہیں بلکہ فرد کی انفرادی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس صورتحال نے بنی نوح انسان کے لئے بے شمار نئے چیلنجز پیدا کر دیئے ہیں۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے نہ صرف طبعی بلکہ عمرانی علوم میں بھی تحقیق ناگزیر ہے۔ انہی مقاصد کے پیش نظر اسلامی تعاون تنظیم نے سائنس و ٹیکنالوجی کی قائمہ کمیٹی کامسٹیک قائم کی تھی تاکہ نوجوانوں میں تحقیق کا ذوق اجاگر کر کے انہیں جدید دور کی پیچیدگیوں کے اسرار اور رموز کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔ کوم سیٹس نے اس عظیم مقصد کے لئے قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں جن میں تحقیقی منصوبوں کے لئے خطیر مالی امداد، تربیت اور اہم موضوعات پر کانفرنسز کے انعقاد سمیت دیگر کئی اہم پروگرام شامل ہیں۔ یہ پروگرام ایک حد تک موثر ثابت ہوئے ہیں لیکن جدید عہد کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر ضروری تھا کہ ایک ایسا جامع پروگرام مرتب کیا جائے جس میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں پر بھرپور توجہ دینے کے علاوہ تخلیقی انداز فکر کی حوصلہ افزائی بھی کی جا سکے تاکہ ہمارے نوجوان مسلم معاشروں کی ضروریات کے تناظر میں علمی سرگرمیوں میں مصروف ہو جائیں۔ اس ضرورت کے پیش نظر کوم سیٹس نے گذشتہ برس اسلام آباد کی جنرل اسمبلی میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی انوویشن 2026ءیعنی ایس آئی ٹی ایس ٹی آئی کے نام سے ایک 10 سالہ پرجوش لائحہ عمل اور ایکشن پلان تجویز کیا تھا جس کی تیاری میں مسلم دنیا کے سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا تھا۔ مسلم دنیا کے قابل احترام مفکرین اور سائنسدانوں کی تجاویز کی روشنی میں اب اس دستاویز میں کئی ضروری ترامیم بھی کر دی گئی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارا یہ معزز ایوان مسلم دنیا کی قسمت بدلنے کے لئے اس منصوبہ کی منظوری دے رہا ہے جس کے تحت خلائی سائنس، فلکیات، آبی حیاتیات، توانائی کی پیداوار، جدید زرعی ٹیکنالوجی، فوڈ سکیورٹی، موسمیاتی تبدیلیوں اور صنعتی معیار میں یکسانیت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اس مقصد کے لئے مختصر اور طویل دورانیے کے کئی قابل عمل منصوبے تجویز کئے گئے ہیں تاکہ کم وسائل کے ساتھ نئی نسل کے سائنسدانوں اور محققین کی صلاحیتیں نکھارنے کے علاوہ ان کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکے۔ اس عظیم منصوبہ کے لئے بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کی ضرورت ہو گی جس کی دستیابی کے لئے کئی کنسورشیم بھی تجویز کئے گئے ہیں۔ میں توقع کرتا ہوں کہ اسلامی برادری خاص طور پر اسلامی ترقیاتی بینک اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری ضرور پوری کرینگے جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ہم نے مسلم امہ کے اجتماعی مفاد میں ہمیشہ بڑے اخلاص اور گرمجوشی کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس نیک کام میں ہمیں برادر اسلامی ممالک اور اسلامی ترقیاتی بینک کا تعاون بھی حاصل رہا ہے جس پر ہم ان کے شکرگزار ہیں تاہم گذشتہ پانچ برس سے ان منصوبوں کے 90 فیصد اخراجات پاکستان نے ہی برداشت کئے ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ مستقبل میں اس شعبہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر کوم سیٹس سیکرٹریٹ سے مزید فراخدلانہ تعاون کیا جائے گا۔ میری تجویز ہو گی کہ اس سلسلہ میں جامع اور متحرک نظام تشکیل دیا جائے تاکہ فنڈز کی فراہمی میں مشکلات کی وجہ سے تعلیم و تحقیق ہمیشہ دیگر علمی منصوبوں میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو سکے۔ پاکستان اس معاملے میں اپنی تمام تر ذمہ داریاں پوری کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم امہ کی ترقی و خوشحالی اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کے تحفظ کے لئے اسلامی ممالک کے درمیان مکمل ہم آہنگی، اتحاد، سائنسی انداز فکر، تعلیم و تحقیق کا ذوق اور اس کے لئے انتھک محنت اور لگن جدید ٹیکنالوجی پر مکمل دسترس تحمل اور رواداری جیسے اعلیٰ اوصاف ناگزیر ہیں تاکہ آنے والی نسلوں کو شاندار علمی اور تہذیبی ورثہ منتقل کیا جا سکے جو آباؤ اجداد کی اصل میراث اور ہماری حقیقی شناخت ہے۔ صدر کا کہنا تھا کہ تیز رفتار مادی ترقی کے جدید رجحانات نے انسان کے جمالیاتی ذوق، نازک جذبات اور شرف انسانی جیسی بنیادی قدروں کو بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ معاشی ترقی کی دوڑ میں طاقتور مزید طاقتور اورکمزور کمزور تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ انسانیت بے بسی کے اس عالم میں کسی مسیحا کی منتظر ہے جو انسان کو زندگی کی تمام تر آسائشیں مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے زخموں پر مرہم بھی رکھ سکے۔ یہ عظیم کارنامہ ترقی کے سفر کو اخلاقی اقدار کے تابع رکھ کر ہی انجام دیا جا سکتا ہے۔ آئیے دکھی انسانیت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہم اپنے انسانی اور تاریخی فریضہ ادا کر کے خالق حقیقی اور اپنے عوام کے سامنے سرخرو ہو جائیں۔ قازقستان کے وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی شنگھائی تعاون تنظیم میں رکن کے طور پر شمولیت کے بعد خطے میں اس کے تعلقات مزید بڑھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ملک چین پاکستان اقتصادی راہداری کا حصہ بننے کا خواہاں ہے اور دونوں ممالک سے ماہرین کے درمیان رابطے کی بھی تجویز دی۔