دوشنبے (اے این این)وسطی ایشیائی ممالک میں ذرائع ابلاغ اس امر پر حیران ہیں کہ جنوبی تاجکستان میں مسلمان علما اپنے ہفتہ وار چندے کی رقم 70 سال تک ملک میں لادینیت مسلط رکھنے والے بولشیویک انقلاب کے رہنما لینن کے مجسمے کی مرمت پر خرچ کر رہے ہیں۔ریڈیو لبرٹی کے ریڈیو آزادی تاجک سروس کے مطابق شہر طوس کی مساجد کے امام اور خطیبوں نے جمع ہونے والی رقم سے روسی کمیونسٹ رہنما کے مجسمے کو شہر کے مرکز میں اسی ستون پر دوبارہ کھڑا کر دیا ہے جہاں پر دو سال پہلے اسے گرایا گیا تھا۔اس مجسمے پر دوبارہ سنہری رنگ کیا گیا ہے اور اس کے ٹوٹے ہوئے ہاتھ کی جگہ نیا ہاتھ لگایا گیا ہے۔شہرطوس کونسل کی مہرینیسو راجابووا کا کہنا یہ خیال تاجکستان کے اماموں کا اپنا ہے۔ انھوں نے آزادی ریڈیو کو بتایا انھوں نے مجسمے کی مرمت کی اور اس یادگار کے گرد پارک کی صفائی کی اور فواروں کی بھی مرمت کر رہے ہیں۔ایک امام مسجد نے آزادی ریڈیو سے بات کی لیکن وہ خرچ ہونے والی کل رقم کے بارے میں انکساری سے کام لے رہے تھے تاہم انہوں نے بتایا کہ ہر مسجد نے ہر ہفتے تقریبا 100 ڈالر چندہ لیا۔شہرطوس میں لینن کا یہ مجسمہ 1980 میں سوویت دور میں نصب کیا گیا تھا اور جنوبی تاجکستان میں یہ سب سے بڑا مجسمہ تھا۔آزادی کے 11سال بعد ملک میں سویت یونین کے بانی کے بیشتر مجسموں کو گرا دیا گیا تھا لیکن اس یادگار کو تاریخی طور پر اہم سمجھا گیا اور یہ نقصان سے محفوظ رہی۔