قائد اعظم کی فہم و بصیرت اور ہماری عاقبت نااندیشیاں

کیا قائد اعظم جیسی بے بدل قیادت ہمیں قیام پاکستان کی تحریک کے لیے دستیاب ہو سکتی تھی اور کیا اب بھی دستیاب ہو سکتی ہے۔ ماضی اور حال کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیتا ہوں تو سوائے مایوسی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ قحط الرجال ہے، سب اپنی اغراض ، انائوں اور مایا کے پجاری ہیں۔ ملک کی خدمت اور اس کی ترقی و استحکام کے جذبے سے سرشار قائد جیسا لیڈر کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ ’’ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم ‘‘ ۔ایسی عظیم ہستی کی آج سے 71 برس قبل -11 ستمبر 1948 ء کو جس کسمپرسی میں رحلت ہوئی کامریڈ لئیق عسکری اس کے عینی شاہد ہیں۔ مرحوم لئیق عسکری بھی مرد قلندر تھے، آل انڈیا مسلم لیگ کے گارڈ تھے۔ انہوں نے ساری عمر لاہور میں پیدل دھکے کھاتے گزاری۔ ہائیکورٹ سے چیئرنگ کراس تک ہمارا اکثر پیدل ساتھ رہتا اور ا س دوران لئیق عسکری مسلم لیگ ، قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح سے وابستہ یادیں میرے ساتھ شیئر کرتے رہتے۔ قائد اعظم کے انتقال کا دلدوز واقعہ بھی انہوں نے اسی طرح میرے ساتھ شیئر کیا اور اپنے تئیں نتیجہ یہ اخذ کیا کہ ان کی سخت علالت میں قائد اعظم ریذیڈنسی زیارت سے ہسپتال پہنچانے میں دانستہ غفلت کا مظاہرہ کر کے اور راستے میں جگہ جگہ خراب ہونے والی ان کی کھٹارا گاڑی میں ڈاکٹر کی تعیناتی نہ کر کے انہیں درحقیقت قتل کیا گیا تھا۔ بے شک موت تو برحق ہے اور برصغیر کے مسلمانوں کو ہندو کی غلامی سے نجات دلا کر ایک الگ مملکت کا تحفہ دینے والے ہمارے بے بدل قائد ٹی بی جیسے موذی مرض کے ساتھ لڑ رہے تھے جس کی انہوں نے انگریز اور ہندو لیڈروں کو خبر تک نہ ہونے دی کہ کہیں یہ اطلاع پا کر وہ ان کی موت کے انتظار میں پاکستان کی تشکیل سے ہاتھ نہ کھینچ لیں مگر ہمارے اپنوں نے ان کے ساتھ کیا کیا ۔ ہم شائد احسان فراموشی میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اس لیے جان کنی کی کیفیت میں مبتلا اپنے عظیم قائد کو شائد اس وقت کی لیگی قیادت نے ان کی موت کی خبر سننے کی جلدی میں حالات کے تھپیڑوں کے سپرد کر دیا۔ لئیق عسکری کے مطابق محترمہ فاطمہ جناح اور وہ خود قائد کی گاڑی کے ساتھ تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح اپنے عظیم بھائی کے منہ پر بھنبھنانے والی مکھیاں ہٹانے کے لیے مسلسل دستی پنکھا جھلتی رہیں مگر قائد جانبر نہ ہو سکے۔ ان کے بعد آنے والی قیادت کے جو لچھن سامنے آئے وہ کامریڈ لئیق عسکری کے الزام کو درست ثابت کرتے ہیں جنہوں نے جاہ و منصب کی خاطر قائد کے پاکستان کو ترقی معکوس کے سفر پر ڈال دیا۔
آج کچھ حلقے اور احباب قیام پاکستان کے حوالے سے قائد اعظم کی فہم و بصیرت پر بھی سوال اٹھانے سے نہیں ہچکچاتے۔ ایک نشست میں میاں خورشید محمود قصوری آف دی ریکارڈ گفتگو کر رہے تھے۔ کشمیر کی صورتحال کا تذکرہ ہوا تو انہوں نے آنکھیں نچاتے ہوئے پھبتی کسی کہ قیام پاکستان کے بعد اگر قائد اعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے اس وقت کے صدر و لبھ بھائی پٹیل کی یہ پیش کش قبول کر لیتے کہ کشمیر لے لو اور حیدر آباد دکن ہمیں دے دو تو آج کشمیر ہمارا حصہ ہوتا مگر یہ پیشکش ٹھکرا کے نہ کشمیر ہمیں ملا اور نہ حیدر آباد دکن۔ اسی طرح محترم سید افضل حیدر نے ہمارے سینئر کالم نگار اسد اللہ غالب کے ساتھ ایک نشست میں پاکستان کی سرحدوں کے تعین کے حوالے سے اپنی ،اپنے والد مرحوم سید محمد شاہ اور میرے والد مرحوم چودھری محمد اکرم کی یادیں شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ سرحدوں کے تعین کے لیے اراضی کا جو ریکارڈ چودھری محمد اکرم نے ان کے والد سید محمد شاہ کو ان کی وساطت سے فراہم کیا اور جس کی بنیاد پر ان کے والد نے متعلقہ عدالت میں سرحدوں کے تعین کا کیس لڑا اس کے مطابق گورداسپور پاکستان میں شامل تھا اور اعلان آزادی کی دستاویز میں بھی گورداسپور کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا تھا مگر ریڈکلف نے ہندو کی ملی بھگت سے گورداسپور کو پاکستان سے کاٹ کر بھارت کا حصہ بنا دیا۔ اس حوالے سے غالب صاحب نے سوال اٹھایا کہ کیا قائد اعظم ، سید محمد شاہ ایڈووکیٹ، سید افضل حیدر اور چودھری محمد اکرم کو ریڈکلف کی جانب سے کئے جانے والے اس گھپلے کا علم نہیں ہوا تھا اور اگر علم تھا تو اس کی مزاحمت کیوں نہ کی گئی۔
میرے خیال میں ایسی باتوں کی بنیاد پر نہ قائد اعظم کی بصیرت کا سوال اٹھایا جا سکتا ہے نہ ان کی ذات کے حوالے سے ایسی باتیں کرنا مناسب ہے کیونکہ انہوں نے شاطر ہندو اور انگریز قیادتوں سے لڑتے الجھتے ہوئے بہرصورت مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطہ ارضی دنیا کے نقشے پر نمودار کر کے دکھایا تھا جو درحقیقت ہندو بنیا کے مہا بھارت کے تصور کی نفی اور ناکامی تھی اور پاکستان کو بھارت کی کوکھ سے نکال کر قائد اعظم نے درحقیقت ہندو کا اکھنڈ بھارت کا خواب چکنا چور کیا تھا۔ گورداسپور پاکستان میں شامل رہتا یا قائد اعظم و لبھ بھائی پٹیل کی حیدر آباد دکن کے بدلے کشمیر لینے کی پیشکش قبول کر لیتے تو یقیناً یہ مثالی صورت حال ہوتی مگر اس وقت کے معروضی حالات میں پاکستان کا حصول ہی بہت بڑا کارنامہ تھا جو یقیناً قائد اعظم کی فہم و بصیرت کے باعث ہی ایک ایسی حقیقت کے روپ میں سامنے آیا تھا جو ہندو لیڈر شپ کو کسی صورت قبول نہیں تھا۔ ہندو نے بادل نخواستہ تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کو قبول تو کر لیا مگر ایک گھنائونی سازش کے تحت ایک کمزور اور کٹے پھٹے پاکستان کی بنیاد رکھوائی جس کے پاس نہ ادارے تھے نہ وسائل جبکہ گورداسپور کو پاکستان سے کاٹ کر تشکیل پاکستان کے عمل میں سکھوں کو پاکستان نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں پر بلوئوں اور ان کے قتل عام کا کھلا لائسنس فراہم کر دیا۔ سید افضل حیدر کے بقول بے شک پاکستان کی سرحدوں کا اعلان -17 اگست کو ہوا مگر پاکستان تشکیل تو پا گیا جسے قائد اعظم نے اپنی فہم و بصیرت اور دور اندیشی کے تحت ہی اپنے پائوں پر کھڑا کر کے دکھایا۔
ہمیں ملنے والا پاکستان بھی بلاشبہ قدرتی وسائل سے مالا مال تھا جنہیں صحیح معنوں میں بروئے کار لایا جاتا تو یہ ارض وطن کب کی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو چکی ہوتی مگر قائد کے بعد کی قیادتوں لیاقت علی خاں سے لے کر آج تک کسی نے اس ارض وطن کے وسائل کو ملک اور قوم کے مفاد کے لیے بروئے کار لانے کا احساس تک نہیں کیا، مارشل لائوں کی تو بات ہی چھوڑیں، سلطانیٔ جمہور والوں نے بھی کیا جمہوریت کی بنیاد پر حاصل کئے گئے قائد کے پاکستان کو جمہوری اصولوں پر چلنے دیا ہے۔ بس سلطانیٔ جمہور کو قصرِ سلطانی میں بدلنے کے کارنامے ضرور سرانجام دئیے گئے۔ کسی کو قائد اعظم ثانی کہلانے کا شوق رہا اور کسی نے اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کے ساتھ سوشلزم کی پخ لگا دی۔ آج ریاست مدینہ کے چرچے ہیں مگر قائد کا پاکستان قائد کے خواب کی تعبیر ہی ڈھونڈتا نظر آتا ہے۔ کیا کہیں ، کس سے کہیں، کچھ بھی نظر آتا نہیں۔ قائد کے پاکستان کی سمت تو لیاقت علی خان نے ہی سوویت یونین کی دورے کی پیش کش ٹھکرا کر اور امریکی غلامی قبول کر کے بدل دی تھی چنانچہ ہم آج تک اسی غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ جس امریکہ کو صرف اپنے مفادات سے غرض ہے اور صرف اپنا ملک عزیز ہے، اس کی خاطر ہم نے اپنے مفادات کی قربانی بھی دے دی ہے اور اپنی سلامتی بھی اس کے ہاتھوں دائو پر لگا دی ہے۔ بھارت اپنے مفادات کے تحت اسی امریکہ کو سامراج کے نام سے پکارا اور سامراج مردہ باد کے نعرے لگاتا تھا مگر اسی بھارت نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اپنے مفادات کے تحت امریکی کیمپ میں شمولیت اختیار کر لی اور ہم امریکی حلیف ہونے کے باوجود راندۂ درگاہ بن گئے۔ سوویت یونین کے خلاف امریکی سرد جنگ سے نائین الیون کے بعد امریکی فرنٹ لائین اتحادی کے کردار تک ہم نے امریکی مفادات کے ٹوکرے ہی اٹھائے رکھے اور قائد کے پاکستان کو بٹہ لگاتے رہے۔ آج اسی امریکہ نے افغان امن عمل میں آٹھ ماہ تک ہمیں رگڑا دے کر اور طالبان کے ساتھ مذاکرات نتیجہ خیز بنانے کی نوبت لا کر عین معاہدے کے وقت دھوبی پٹڑا لگا کر ان مذاکرات کی میز الٹا دی ہے تو بھائی صاحب آج ہی ہوش کے ناخن لے لیں اور افغانستان کو طالبان کے ہاتھوں امریکیوں کا قبرستان بننے دیں۔ ہمیں اس کے مفادات سے کیا لینا دینا ہے۔ ہمیں بس اپنے امن سے سروکار ہونا چاہئے جو طالبان سے پہلے جیسے بہتر تعلقات کار کی بنیاد پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ تو جناب! آج یوم قائد کے موقع پر قائد اعظم کی فہم و بصیرت کو سامنے رکھتے ہوئے ٹرمپ کو ٹرمپی پٹڑا لگائیے اور اس کے مفادات کی جنگ اس کے منہ پر دے مارئیے۔ پھر دیکھئے وہ افغانستان سے الٹے پائوں کیسے واپس بھاگتا ہے۔ اس کے لیے بس قائد اعظم کی بصیرت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہمت دکھا ئیے، بسم اللہ کیجئے اور قائد کی روح کو خوش کرنے کا اہتمام کیجئے۔ بے شک خدا ہمارا حامی و ناصر ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن