اسلامی مہینوں کے نئے سال 1441ھ ،نئے مہینے محرم الحرام کا اللہ کے فضل و کرم سے آغاز ہوگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ سال پوری اُمت ، عالم اسلام کے لیے اتحاد ،وحدت ،یکجہتی ،عزت و سربلندی ، ترقی و خوشحالی ، امن وآزادی اور خیر وبرکت کا سال بنادے ،آمین۔ ماہ محرم الحرام اسلامی سال کا آغاز ہے اس ماہ میں ایسا تاریخی اور انقلابی سانحہ پیش آیاکہ ہر سال یہ عظیم قربانیاں اہل ایمان کو سبق دیتی ہیں ، کربلا کا درس یا دکراتی ہیں کہ اصل زندگی خدا کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردینا ہے ، میدان کربلا میں امام حسین ؓ اور خانوادۂ رسول ؐ کی قربانی کا یہ ہی پیغام ہے ۔
انسانی تاریخ اور معاشروں میں انسان ہی ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں ، مہلت عمل کے اختتام پر اپنے رب کی طرف لوٹ جاتے ہیں ۔ اللہ کی کتاب قرآن یہ ہی آگہی دیتی ہے کہ زندہ رہنے اور ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے زندگی گزارنے کا حق اُن کو ہی ملتاہے جو حق پر قائم رہیں اور حق کی خاطر جان دینے کے لیے تیار رہیں۔ وہ قوم او رانسان جو موت سے ڈرے لرزے ان کے لیے موت اور مٹ جانا ہی مقدر ہوتا ہے۔ لیکن جو گروہ ، قوم اور فرد اللہ سے ڈرتا ہے ، رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کی پیرو ی کرتاہے ،غلبہ حق کے لیے سرگرداں رہتاہے اور وقت پڑنے پر موت سے پنجہ آزمائی کے لیے تیار ہوتاہے ۔ اللہ کی طرف سے کامیابیاں بھی اُن کے لیے اور فتح و نصرت سے بھی وہی نوازے جاتے ہیں ۔ انسا ن کے لیے عزت و سربلندی کی زندگی یہ ہی ہے کہ اللہ کی راہ میں جان، مال اوروقت قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔
خلافت راشدہ معیار حق ہے ، صحابہ کرام ؓ نے اپنی پوری زندگیاں دین حق کی پاسبانی میں گزاریں۔ خلافت راشدہ محض ایک سیاسی حکومت نہیں تھی بلکہ نبوت کی مکمل نیابت تھی ، خلافت کا کام صرف یہ نہ تھا کہ حکومت کرے ، ملک کانظم و نسق چلائے ، امن قائم کرے ، سرحدوں کی حفاظت کرتی رہے بلکہ مسلمانوں کے اجتماعی نظام زندگی میں معلم، مربی اور مرشد کے وہ تمام فرائض انجام دیتی تھی جو رسول اللہ ﷺاپنی حیات مبارکہ میں انجام دیا کرتے تھے ۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ دارالاسلام میں دین حق کے پورے نظام کو اس کی اصل روح کے ساتھ چلائے ، اور پوری دنیا میں اہل ایمان کی اجتماعی طاقت کو اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت پر لگادے ، اسی لیے یہ صرف خلافت راشدہ ہی نہیں خلافت مرشدہ تھی ۔ دین سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ امربالکل عیاں رہنا چاہیے کہ اسلام میں ایسی ریاست مطلوب ہے جو محض سیاسی و جمہوری حکومت ہی نہ ہو بلکہ خلافت راشدہ کی تمام خصوصیات کی پیروی اس کی ترجیح اول ہو۔
یہ پہلو غور طلب اور جاننے سے تعلق رکھتا ہے کہ رسول اللہ ﷺکی عظیم قیادت ، رہنمائی اور پھر خلفائے راشدین کے عظیم دور و کردار کے بعد یہ نظام خیر شخصی خواہشات کے زیر کیسے چلا گیا۔ مسلمانوں کے ریاستی نظام کے اصول اور اسلوب حکمرانی کو کیسے تبدیل کیاگیا اور کس رویہ اور طریقہ نے اسے راستہ سے ہٹایا جس کی وجہ سے اسلامی تاریخ اور مسلمانوں پر خوفناک گہرے اثرات بد پیداہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر بن خطاب ؓ،حضرت عثمان غنی ؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے ادوار کے اختتامی مراحل میںریشہ دوانیاں شروع ہوئیں اور المناک واقعات رونما ہوئے لیکن کئی اختلافی مراحل سے گزر کر خلافت ، اختیارات ، ریاست چلانے کا عبوری مرحلہ حضرت معاویہ ؓ کے ہاتھ میں آیا تو اسلامی بصیرت رکھنے والے جان گئے تھے کہ اب خلافت کے رہنما اصولوں کی بجائے شخصی بادشاہت اور اسلوب سے سابقہ درپیش ہے۔ تاریخ کے اوراق میں یہ امر نقش ہے کہ حضرت سعد ؓبن ابی وقاص جب حضرت معاویہ ؓ کی بیعت ہوجانے کے بعداُن سے ملے تو السلام علیک ایھا الملککہہ کر خطاب کیا تو حضرت معاویہ ؓ نے کہاکہ اگر آپ امیرالمؤمنین کہتے تو کیا حرج تھا انہوںنے جواب دیا خدا کی قسم جس طرح آپ کو یہ حکومت ملی ہے اس طریقے سے اگر یہ مجھے مل رہی ہوتی تو میں اس کا لینا ہرگز پسند نہ کرتا۔ حضرت سعد ؓ وہ عظیم مقام رکھتے تھے کہ زمانہ فتنہ میں اُن سے کہا گیا کہ خلافت آپ کا حق ہے ، یہ حق لینے کے لیے کھڑے ہوجائیں تو ایک لاکھ تلواریں آپ کی حمایت کے لیے تیار ہیں ۔ انہوںنے جواب دیا ’’ایک لاکھ تلواروں میں سے میںصرف ایک تلوار ایسی چاہتاہوں جو کافر پر تو چلے مگر کسی مسلمان پر نہ چلے ۔ ‘‘ (البدایہ ، جلد۸،ص:۲۷)حالات نے حضرت معاویہ ؓ کو خود ہی سمجھا دیا تھا اور ہ خود ایک مرتبہ کہہ اٹھے کہ ’’انا اول الملک ‘‘میں مسلمانوں میں پہلا بادشاہ ہوں۔ رسول اللہ ﷺکی حدیث مبارکہ ہے کہ میرے بعد خلافت 30سال رہے گی پھر بادشاہی ہوگی۔ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے بحال ہونے کی اس مرحلہ پر یہ صورت باقی رہ گئی تھی کہ حضرت معاویہ ؓ اپنے بعد اس منصب پر کسی شخص کے تقرر کی بجائے معاملہ مسلمانوں کے باہم مشورہ پر چھوڑ دیتے، اگر وہ اپنی زندگی میں ہی جانشینی طے کرنا چاہتے تھے تو بھی صاحبان رائے اور اہل علم کو جمع کرکے انہیں آزادی کے ساتھ یہ فیصلہ کرنے دیتے کہ ولی عہد کے لیے اُمت میں موزوں ترین کون فرد ہے لیکن انہوںنے اپنے بیٹے یزید کی ولی عہدی کے لیے خوف ، لالچ ، طمع کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے بیعت لے کرانہوں نے بحالی خلافت کے اس امکان کا بھی خاتمہ کردیا۔ اس طرح خلافت راشدہ کے نظام کاآخری اور قطعی طور پر خاتمہ ہوگیا ۔ حضرت معاویہ ؓ کادین سے اخلاص اور جہد مسلسل میں مقام بہت بلند ،شرف صحابیت میں بھی واجب الاحترام ، ان کا یہ کردار اسلامی تاریخ پر نقش ہے کہ دنیائے اسلام کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا اور دنیا میں اسلام کے غلبہ کا دائرہ بہت وسیع کردیا ۔ اُن کی عظیم شخصیت پر جو لعن طعن کرتاہے وہ زیادتی کرتاہے، علم سے بے بہرہ ہونے کاثبوت دیتاہے۔ لیکن ایسا عمل جو حق و انصاف ،اُمت کے لیے خیر کا باعث نہ بنا اسے بھی تو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہی درست قرار نہیں دیا جاسکتا ، پھر تو صحیح اور غلط کامعیار خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ میدان کربلا میں دین حق کی حفاظت ، خلافت کے احیاء اور اہل ایمان پر بادشاہت ملوکیت کی بجائے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قیادت اور نظام کے قیام کے لیے نواسۂ رسول ؐاور خانوادۂ رسول ؐنے قربانی دی۔ رسول اللہﷺنے فرمایا حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓنے روایت کیا کہ حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کے لیے دعا فرمائی :’’اے اللہ میںان دونوں سے محبت کرتاہوں تو بھی ان دونوں سے محبت فرما اور جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے حقیقت میں مجھ سے محبت کی ۔ ‘‘حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بھی روایت کرتے ہوئے آپ ؐسے یہ الفاظ منقول کیے : ’’اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتاہوں تو بھی ان سے محبت فرما، جوان سے بغض رکھے تو ان سے بغض رکھ ۔ ‘‘ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں :’’میں نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا ، حضور اکرم ﷺنے ایک چادر بچھا رکھی تھی اس پر حضور اکرم ﷺ،میں ، حضرت فاطمہ ؓ ،حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ سب بیٹھ گئے ۔ پھر حضور اکرم ﷺنے چادر کے چاروں کونے پکڑ کر گرہ لگادی۔ پھر یہ دعا فرمائی :اے اللہ جیسے میں ان پر راضی ہوں تو بھی ان پر راضی ہو جا۔‘‘(طبرانی ۹/۹۶)
اس خانوادہ کے عظیم رکن حضرت امام حسین ؓ کا حق اور فرض بنتاتھا کہ جب اسلام کی فکر ، سیاست ، خلافت ، سماجی واخلاقی قدریں اور دینی اقدار پامال ہو رہی تھیں سارے نظام بابرکت کا رخ موڑا جارہاتھا تو یزید کی بیعت کرنے کی بجائے حق کے علم کو بلند کیا جاتا تاکہ اسلام کی فکر ، سیاسی ، سماجی اور دینی حیثیت کو غلط راستے سے بچا کر حق کی راہ پر قائم رکھا جاتا ۔ اسی جرم کی پاداش میں یزید نے نشہ اقتدار میں سب ہوش کھو کر امام عالی مقام اور خاندان پیغمبر زماں ، خانوادۂ رحمۃ اللعالمین کو شہید کیا ،صرف اپنی ذات کی بالادستی اور ناحق اقتدار کے لیے ۔ امام عالی مقام کی شہادت ایک ایساالمناک او ردردانگیزواقع تھا کہ اُمت صدیوں سے آنسو بہانے کے باوجود اُن کی شہادت پر آج بھی افسردہ اور غم ناک ہے۔ سینکڑوں برس گزرجانے کے باوجود یہ زخم ،غم اور واقعہ تازہ ہے۔’’ابو الکلام آزادؒ کے بقول امام حسین ؓ کے جسم خونچگاں سے دشت کربلا میں جس قدر خون بہاتھا اس کے ایک ایک قطرے کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم الم کا سیلاب بہا چکی ہے ۔ ‘‘شہادت امام حسین ؓ اُمت مسلمہ کے لیے ایک عظیم درس ہے۔ میدان کربلا میں جیت اور غلبہ تو یزیدی سپاہ کو ہوئی تھی جب کہ ہار،ہزیمت اور شہادت سیدنا امام حسین ؓ اور ان کے جان نثار ساتھیوں کے حصے میں آئی تھی ۔ لیکن حق اور سچ یہ ہے کہ امام عالی مقام ؓ ہار کر بھی جیت گئے ، شہادت دوام اور رہتی دنیا تک کے لیے عزم و استقلال کی علامت بن کر آج مسلمانان عالم کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔
حضرت امام حسین ؓسید الاولین ولآخرین ﷺکی دینی ، روحانی اور خونی وراثت کے امین تھے۔ وہ خاتون جنت حضرت فاطمہ ؓ اور خلیفہ راشد حضر ت علی ؓ کے فرزند ارجمند اور اُمت مسلمہ کے روحانی امام اور پیشوا تھے۔ حسب و نسب ، اعمال ، افعال ،کردار ،علم و فضل اور زہد و ورع میں اُمت مسلمہ کے لیے مینارۂ نور اور منبع رشد و خیر تھے۔ لیکن بد قسمتی سے اُمت مسلمہ کا ایک خاص طبقہ امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم ترین قربانی اور شہادت کو ایک دوسرے رنگ اور زاویے سے دیکھتاہے۔ جب کہ جذبۂ اسلام سے سرشار ہر مجاہد بلکہ دنیابھرکی تمام حریت پسند ہستیاں انہی سے مردانگی اور بہادری کادرس لیتی ہیں۔ اور وہ سب لوگ جانتے ہیں کہ کسی بھی حالت میں ظلم و ستم ، جبر و تشدد اور بربریت ایسے دلیل ریاستی ہتھکنڈے تسلیم کرنے کی بجائے کٹنا، مرنا اور راہ حق سے منحرف نہ ہونا ہی حیات جاودانی ہے۔
بعض لوگ بڑی سادگی یا ہوشیاری سے عقل و دانش کا لبادہ اوڑھ کر تاریخ اسلام کے اس اہم ترین واقعہ میں غیر معقول بلکہ معکوس طرز گفتگو اور استدلال اختیار کرتے ہیں۔ غیر سنجیدہ اور بے اعتبار و بے بنیاد روایات کاسہارا لے کر ’’حادثہ کربلا ‘‘کے ضمن میں اہانت کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ ایسے دانشور عقل و فکر سے عاری ، روایت اور درایت سے بیگانہ ہیں، یا فطری رجحان کے باوجودان کی علمی وفکری جو لانیاں ان کا ساتھ نہیں دیتیں اور وہ اس عظیم اور اہم ترین واقعہ کی حقیقی سنگینی کااحساس وادراک کرنے سے عاری ہیں۔ جس دور کی سپاہ اور ان کے تیر و تلوار یں امام حسین ؓ ایسے عظیم انسان سے انصاف نہ کرسکیں ۔ اس عہد کی بیشتر روایات اور قلم کی ضوء فشانیاں کیونکر اور کیسے امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓ کے متعلق انصاف کے تقاضے پورے کرسکتے ہیں۔
حضرت حسین ؓ سے عقیدت و محبت کا حق وہی لوگ ادا کرتے ہیں جو سرفروشی اور جاں نثاری کے جذبات سے سرشار ہوکر خدا کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے ہی کو اپنی سعادت جانتے ہیں۔کربلا کی داستان یہ ہی سبق دیتی ہے کہ مردہ یزیدپر ہی ماتم نہیں زندہ یزیدوں کے مقابلہ پر کھڑے ہونے کے لیے یہ ہی پیغام ہے کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کی زندگی باطل کے مقابلہ میں جم کھڑے ہونے اور حق کے لیے جان عزیز کی شہادت دینے میں مضمر ہے۔
اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد
آج دجلہ اور فرات کے پڑوس میں پھر باطل نے عالم اسلام کو للکارا ہے اور نواسہ رسول حضرت حسین ؓسے پیار کرنے والوں کے لیے پھر ایک موقع فراہم ہواہے کہ وہ حق کی طرف اپنی جانیں لڑا دیں اور یہ ثابت کردیں کہ حسین ؓ سے عقیدت رکھنے والے حسین ؓ کی یاد میں صرف آنسو بہانا ہی نہیں جانتے ، بلکہ حق اور آزادی کی خاطر ان کے اسوہ پر چلنے اور گردنیں کٹانے کاحوصلہ بھی رکھتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ جو قوم جان دینے کے لیے تیار ہوتی ہے باعزت زندگی کاحق اس سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔ خداگواہ ہے کہ راہ حق میں مارے جانے والے کبھی نہیں مرتے بلکہ انہی لوگوں کو اصل زندگی حاصل ہوتی ہے۔’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ، انہیں مردہ نہ کہو ، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں ، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ۔ ‘‘ (البقرۃ)
(خلافت و ملوکیت ،مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ،متن اربعین امام حسین ؓ،مولانا عبداللہ دانش ،مضمون مولانا یوسف اصلاحی ، حیاۃ الصحابہ ؓ:مولانا یوسف کاندھلوی سے استفادہ کیاگیا۔)
شہادت امام حسین ؓ کاعظیم پیغام
Sep 10, 2019